گُم شدہ نسلوں کی لوری
نصیر احمد ناصر
ذائقوں کے سارے دریا خشک ہیں
مٹی کی پختہ ہانڈیوں میں ریت ابلتی ہے
سُنا ہے، بستیوں میں
ہجرتوں کا جبر اترا ہے
پرندے گھونسلوں کو چھوڑ کر جانے لگے ہیں
فیصلے تو آسمانوں سے اترتے ہیں
کتابوں میں، نصابوں میں لکھا ہے
دل کی باتیں باعثِ تعزیر ہیں
ماں کی رضاعت جرم ہے
شب، کرفیو لگنے سے پہلے
چُوسنی لینے گیا تھا وہ
مگر لوٹا نہیں ۔۔۔
سو رہو بچو!
ہوائیں بادبانوں کو سناتی ہیں
کہانی پانیوں پر جو لکھی تھی
ڈوبنے والے جہازوں، آبدوزوں کے جوانوں نے ۔۔۔
بچھڑتے وقت آنکھوں کے سمندر خشک تھے، چٹخے ہوئے تھے
یا سفر کی ریت نے سارے مساموں پر لکھا تھا:
چُپ رہو!
نیند میں جاگے ہوئے
عمریں گزرتی جا رہی ہیں
ایک پَل ٹھہرا ہُوا، کٹتا نہیں
سورج سوا نیزے پہ آ کر لوٹ جاتا ہے
صدائیں دو انھیں
جو صورِ اسرافیل سُن کر
سب سے اگلے مورچوں میں سو گئے تھے
اُن کے بچے جاگتے ہیں!
(1975ء)