fbpx
نظم

کہیں کوئی نہیں ہے / علی اختر

کہیں کوئی نہیں ہے

کہیں کہیں روشنی پڑتی ہے
میں آسمان کی جانب دیکھتا ہوں
ایک موسم ہے
جو سال بھر ختم نہیں ہوتا
ایک خوشبو ہے
جو میرے اندر دور تک پھیل گئی ہے
ناجانے کتنی محرومیوں سے
 مل کر میں بنا ہوں
کہیں سے تمہاری ندا آتی ہے
میں بے سمت دوڑنے لگتا ہوں
مگر میرے علاوہ
کوئی نہیں ہے
میں روز ملنے والوں سے
محتاط ہو کر ملتا ہوں
کوئی بھی چہرہ مانوس نہیں لگتا
ناجانے تمہارا ہاتھ
 کتنے گریبانوں کو کھا رہا ہو گا
ناجانے کون تمہارے خیال میں
 روز سیڑھیوں سے گر رہا ہو گا
جنہیں زندگی تسلیم نہیں کرتی
ناجانے کیوں اُن زندہ لاشوں کو
بستر تسلیم کر لیتے ہیں
ہم روز تمہاری ہنسی ہنس کر
اپنا زخم بھر لیتے ہیں

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے