بہاوُ
فرخ یار
میں سوچتا ہوں
بچی کھچی زندگی کے اندر
اگر کبھی جینا پڑ گیا تو کہاں جئیں گے
تمام جغرافیائی حلقے
فلک کے پھیرے الگ الگ ہیں
ازل ابد کی شریک حد پہ تماشاگاہوں کی چوبکاری
افق سے ملتی ہوئی ہوئی زمینوں کے نین نقشے جدا جدا ہیں
کہیں پہ دریاکے پانیوں میں خمار کی مینڈھ بولتی ہے
کہیں پہ ندی بہاو کی بھیڑ سے پریشاں
رکے تو کیسے چلے تو کیونکر
سخن کے اندر اتر کے چلنے کی رہ نہیں ہے
وہ حبس۔دم ہے کہ لوگ پنجوں پہ چل رہے ہیں
میں سوچتا ہوں
سجیل خوش رنگ زندگی کو
ہم ایسے افتادہ خاک لوگوں کے واسطے بھی
کوئی مناسب جگہ تو ہو گی
کوئی علاقہ جہاں پہ وحشت کی سانجھ
سر چڑھ کے بولتی ہو
وہ منطقہ جس کی گھاٹیوں پر ابھی کسی نے
شکار گاہیں نہیں بنائیں
وہ جنگلی پیڑ جن کے چھتنار میں ہمارے عزیز کردار
آ رکیں تو انہیں درندوں کا خوف کم ہو
میں سوچتا ہوں
ہمارے چاروں طرف
مقابل کی ہولناکی میں اک بھیانک برہنگی ہے
لباس جو دھجیوں کی صورت بکھر گیا تھا
اگر کبھی سینا پڑ گیا تو کہاں سئیں گے
کوئی مناسب جگہ تو ہوگی