چھڑی کی منتقلی
نسیم سید
مقتدرین_ زمان و مکاں کے بغل میں دبی
جس چھڑی کے ریشے ریشے میں
کولونیل عذاب
کی تاریخ درج ہے
جو سیاہ چمڑیاں ادھیڑ کے
ان کی کھال کے جوتے بنتے دیکھنے کی
چشم دید گواہ ہے
جو پہلی،دوسری اور تیسری جنگ_ وحشت* کے جرنیلوں کی داشتہ رہی ہے
جس نے اس زمیں کے حقیقی وارثوں
کی ہر شناخت کو
مار مار کے
ادھ موا کردیا
وہ چھڑی
ہم نے بصد افتخار
تمغہ کے طور
اپنے سینے پہ
سجالی ہے
یہ ہماری آوازوں کو ٹکٹکی پر باندھ کے
اتنا پیٹتی رہی ہے کہ اب وہ سسک سسک کے مر رہی ہیں
اس نے ہمیں بھیڑ بکریوں میں تبدیل کردیا
اور اب یہ جدھر چاہے ہمیں ہانکتی ہے
یہ اشارہ کرتی ہے
اور ہم
اپنی فکری بدحالی پر تالیاں پیٹتے ہیں
یہ حکم دیتی ہے
اور ہم اپنی مفلوک الحالی میں مطمئن
بھنگڑے ڈالتے ہیں اے قدیم و عظیم چھڑی!
بتا ہم کیا کریں؟
تیرے پاس
ہمارے لئے
کیا کوئی زائچہ
کوئی پیشن گوئی ہے؟
دیکھ !
آئندہ نسلوں کو
سوائے خواب
اور عذاب کے
ہمارے پاس دینے کو کچھ نہیں ہے
کیا ہمیں ہر طاقت کے بغل میں دبی چھڑی کی
اطلاعات ہی
نسل در نسل منتقل کرنی ہوگی
یا؟؟
(*جنگ_ عظیم کہنا مجھے حرف "عظیم کی توہین لگتا ہے)