خلا فروش
توحید زیب
خلا فروش ! اے گرد آلود و کم فہم خلا فروش !
کیا تجھے خبر ہے؟
کئی سادہ و معصوم ستارے
کرمکِ شب تاب کے جلوسِ ناتمام سے خوف ذدہ ہیں
یہ کیسی عکس آفرینی ہے؟
اجرامِ گرد و نواح شکل و شبہات میں
اپنے نقش و نشاں سے بہت مختلف ہیں
منسلک ہیں قطار در قطار عکسِ دیگر سے
یہ قافلۂ شب تاب رحیل ہے
کسی سمت نامعلوم کو۔۔۔
اے خلا فروش ! پردۂ گوش مُشتاق ہے !!
تیرے بیان و حرف کا
سینۂ سلطان کھول ،
کچھ تو بول
کیوں تجھے اس رہگزر کی پہرے داری
رگِ جاں سے عزیز تر ہے
اُس سمت کس کا در ہے؟
کیوں آج تیرے نقش و نگارِ چہرۂ روشن
مثلِ بے جاں ہیں؟؟؟؟
آؤ ،
آؤ ! اے بے آرمیدہ و ژولیدہ ، کنج رفتار روشنانِ فلک
یہ لطف نامہ ہے مخبرِ جہان آفرین کا
” ایک دن کے لیے کارِ لامکاں ملتوی رہے
سبھی ستارگانِ آئندہ
محوِ پرواز ہو جائیں شراکت کے لیے
نئے فلٹر کی پیدائش پر
میک اپ زدہ کائنات میں آج جشن ہے "