قَبرِستانوں میں دل آباد رہتے ہیں
علی زیوف
ہمارے چِھدرے دِلوں کے پرس میں
جدائی کا سانحہ
زندگانی کی رسیدی ٹکٹیں
زیادہ دیر رہنے نہیں دیتا
جو کسی بھی سفر کا رختِ سفر تو نہیں ہوتیں
پھر بھی ہمیں اُن کو چکانا پڑتا ہے
ٹیلی پورٹیشن کے دوران
آتی جاتی مسکراہٹوں کی نقل مکانی میں
لحد کے خاکستری بستر پر اِستِراحت فرما ہوتی
قضائے ناگہانی میں
لحد کے باورچی خانے میں دل آباد تو رہتے ہیں مگر،
فِراق زدہ ——
نمکیں آنسوؤں کا سُوپ زیادہ دیر تابناک نہیں رہتا
بازوؤں کے وِنگز
سہارے کی سیخوں کا بوجھ اٹھانا چھوڑ دیتے ہیں
حسرتیں موسموں کی کھڑکی سے سبکدوش ہو جاتی ہیں
جبکہ مایوسی کی مشین مکمل طور پر ناکارہ نہیں ہوتی
اور
ہالوسینیشن کا سکہ دوبارہ رائج نہیں ہوتا
تب
مقامِ اعراف تک پہچانے والا ہیلیئم کا غبازہ
خدا بچوں کی پہنچ سے کہیں دور رکھ دیتا ہے
جناز گاہوں میں دل آباد رہ جاتے ہیں
ہریالے باغوں میں مرجھائے ہوئے چہرے لے کر
خار خار دکھانت کے ہمراہ
جب چیسیں ہماری روح میں
نقب زنی کرتی ہیں تو زمین سے اوپر
جسم کے چبوترے میں دراڑیں بڑھتی ہیں
یادوں کی پٹاری خالی ہونے سے قبل
جذبات کے چوراہے سنسان ہو جاتے ہیں
چوراہے——
جن کے کچے فرش سے آتی پکی آوازیں
سماعتوں کے زندہ ہونے کا پتہ دیتی ہیں
ہو بہو ویسے جیسے—
بے احتیاطی برتے بغیر
ہمارے دِلوں کا سرخ پرس کھنکھناتے قہقہوں سے
نئے نوٹوں کی طرح ہمیشہ بھرا رہتا ہے