fbpx
نظم

سچ کی جھوٹی کتھا / طاہرے گونیش

سچ کی جھوٹی کتھا
نظم: طاہرے گونیش

باسفورس کی موجوں میں
ڈوبتے اچھلتے دل کو
بیبک کے ساحل پر
سنبھالتے
کسی کیفے کے
جنگلی بیل سے ڈھکے گوشے میں
سمندری بگلوں کی صدا
کے سائے میں
دھوپ سے بچتے ہوئے
خالی میز پر انگلیوں سے موسیقی بجاتے ہوئے
ایک خیال
کسی بیزار بیرے کی طرح
بار بار
آ کر
مجھے ستا رہا ہے
کہ
تمہاری تو انگلیاں سلامت تھیں
تم نے سچ کیوں
نہیں لکھا؟
تمہاری انگلیوں سے ریشم لپٹا تھا
تم نے ننگی انگلیوں میں قلم تھامنے
کو ترجیح نہ دی
کیونکہ ننگی انگلیاں ننگا سچ لکھتی ہیں
جب کہ ریشم میں لپٹی انگلیاں
مصلحت پرست بن جاتی ہیں
وہ سچ اور جھوٹ کے میل جول والے
لفظ رقم کرتی ہیں
اور پھر جب انھیں کوئی جھوٹ، سچے آنسو رلاتا ہے
تو وہ ریشم میں جذب ہوجاتے ہیں
اور انگلیوں کی پوریں آنسوؤں کی نمی سے
یکسر محروم رہ جاتی ہیں
بیرا، باسفورس کے پانیوں میں مجھے اپنے آنسو ڈھونڈتا ہوا
دیکھ کر
چائے رکھ جاتا ہے
جیسے یہ چائے
مداوا ہو
ان سب ملالوں کا
جو جھوٹ کے پیالوں میں،
میں نے سچ سمجھ کر پیا
اور پھر تمام
عمر جھوٹ ہی جیا۔۔۔۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے