سایہ
مدیحہ مغل
رخشِ عمر راکب سے بے نیاز ہے
سر پٹ دوڑ رہا ہے
راکب اپنے خیالوں میں گم ہے
اسے ایک ایسا سفر در پیش ہے
جس کے کسی بھی پڑاؤ پر تھکن اتارنے کی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
اس عالمِ مسافرت میں
مسافر اپنے دکھوں کی زنبیل اٹھائے
حصولِ مسرت کے لیے
اپنے سانسوں کی ریزگاری لٹا رہا ہے
امید اور نا امیدی کے درمیان پھیلی دھند کے پار
کسی ان دیکھے منظر کی کھوج میں غلطاں ہے
ماحول کی رگ رگ میں اتری ہوئی بے حسی
ایک آسیب کی صورت سامنے ہے
ایک لگن ہے جو پسپا نہیں ہونے دیتی
ریزہ ریز ہوتی آتما
کسی معجزے کی منتظر ہے
طلب شدت اختیار کرتی ہے
تو بند دروازے کھلنے لگتے ہیں
احساس کے کومل بدن میں کوئی خوشبو سے گھلتی ہوئی محسوس ہوتی ہے
نیا منظر نامہ ابھرتا ہے
یقین کا روشن ہالہ بکھرے ہوئے وجود کی
شیرازہ بندی کرنے لگتا ہے
سایوں کی تلاش میں بھٹکتا مسافر
اپنے روبرو آتا ہے
تو اسے اپنا سایہ برگد کے سایے جیسا لگتا ہے
وہ اس برگد کے تنے سے ٹیک لگا کر
نروان حاصل کرنے کی آرزو پالنے لگتا ہے
ریاضت محویت میں بدلتی ہے
وقت کی رفتار کم ہونے لگتی ہے
تو پس منظر کی جزئیات نمایاں ہوتی چلی جاتی ہیں
حیرتیں حیرتیں نہیں رہتیں
مسافر یہ تو نہیں جانتا کہ اسے نروان حاصل ہوا ہے یا نہیں
مگر اتنا ضرور جانتا ہے
کہ اسے اپنے سائے سے عشق ہو گیا ہے
وہ اپنے آپ پر فریفتہ ہو گیا ہے
اسے معلوم ہے کہ وہ تنہا نہیں ہے
ایک وابستگی ہے
جسے بالآخر نروان کا روپ دھارنا ہے
تجسیم کے امکانات لو دینے لگے ہیں
سپردگی حدیں مٹانے لگی ہے
خلا بھرنے لگا ہے
عشق بار آور ہو رہا ہے