درُوں بانی
نصیر احمد ناصر
پیڑ اب اندر اُگتے ہیں
باہر تو فولاد اور کنکریٹ کا جنگل ہے
حدِ نظر تک
اونچے نیچے پکے گھر،
اسفالٹ بچھی سڑکیں، ٹف ٹائلز کے فٹ پاتھ ہیں
مَرمَر کے مانومنٹس ہیں
ملٹی سٹوری بلڈنگز، شاپنگ مال اور پلازے ہیں
ان کے گردا گرد اور بیچ میں
پھول اور پودے
حشرات الارض، انساں اور پرندے
کیسے پنپ سکتے ہیں
اب تو جو ہونا ہے
اِن ڈور ہی ہونا ہے
اندر ہی اندر بسنا
اندر ہی اندر ہنسنا رونا ہے
مَن کے بھیتر جتنے چاہو پیڑ اُگا لو
چاہو تو باغ بنا لو
چڑیاں، طوطے، جنور پالو!
Follow Us