fbpx
نظم

جنگیں اور نظمیں ختم نہیں ہوتیں / نصیر احمد ناصر

آج صلاح الدین پرویز کی گیارویں برسی ہے۔ اس خوبصورت شاعر اور دوست کے ساتھ کئی یادیں وابستہ ہیں۔ صلاح الدین پرویز کے ساتھ یہ تصویر 1993ء کی ہے۔

جنگیں اور نظمیں ختم نہیں ہوتیں

نصیر احمد ناصر

صلاح الدین!
تمہیں جنگل کی تلاش تھی
تمہارا جنگل تمہارا شاوک تھا
یہیں کہیں ہو گا
تمہارے ہی شبدوں کے بھیتر
شتابدیوں، آتماؤں اور کالبدوں کی بھیڑ میں
نرتکیوں، ناریوں کی اوٹ میں
چولیوں، ہم جولیوں کی الوتا میں منہ بسورتا
کون و مکان کی بیضوی گولائیوں میں
کہیں پھسلتا ہوا
کسی پارک میں
خدا کا جھولا جھلاتا
ازل اور ابد کے سی سا کے دونوں طرف خود ہی بیٹھا ہوا
تخلیقی تنہائیوں میں
کھویا ہوا
رویا ہوا
یا تمہاری کسی محبوبہ کے دودھیا سینے پر سر رکھ کر
آدھا جاگا، آدھا سویا ہوا
یا تم سے کبھی نہ مل سکنے والی
کسی سانولی سلونی عورت کی غیر مرئی کوکھ میں
بویا ہوا
روشنی کا بیج
جو ابھی اگ پڑے گا
دیکھتے ہی دیکھتے آسمان ستاروں سے ٹمٹمانے لگے گا
اور زمین لالٹینوں سے بھر جائے گی
چاروں طرف رات کا آرکسٹرا بج اٹھے گا
اندھیرے کی آواز پُراسرار اور رومان پرور ہو جائے گی
اور موسیقی تیز بارش کی طرح
ہر جماد و ذی روح کو جل تھل جل تھل کر دے گی
تمہارا جنگل، تمہارا شاوک تھا
بانسری بجاتا ہوا
گوپیوں سے بھر جائے گا
لیکن صلاح الدین! تم کہاں ہو گے؟
میں تمھیں ڈھونڈنے کہاں جاؤں گا؟
تم اب جنگل نہیں رہے، درخت بھی نہیں رہے
کہ اپنی شاخیں
دریچوں جیسی لڑکیوں کےدلوں اور روحوں کی بالکونیوں تک پھیلا سکو
خلا بھی نہیں رہے کہ آسمان کو فِل کر سکو
آتما بھی نہیں رہے کہ "پرماتما کو خط” لکھ سکو
سمندر بھی نہیں کہ کسی ساحل سے ٹکرانے، سوری، ملنے آ سکو
بادل بھی نہیں کہ کسی استری کی پیاسی گھاٹیوں میں اتر سکو
سایہ بھی نہیں رہے کہ کسی جسم کا روپ دھار لو
یاد ہے ایک بار میں نے کہا تھا
"نظم کے درخت کا سایہ نہیں ہوتا”
اور تم پہلی بار
بس حیرت اور خاموشی سے مجھے دیکھتے رہ گئے تھے
کیونکہ اس وقت تم
کسی گہری گھنی نظم کی نروات چھاؤں میں تھے
ورنہ تم تو
ہر اچھی بات اور اچھی نظم کا حساب فوراْ ہی برابر کر دیتے تھے

صلاح الدین!
تم انتم یدھ میں
اتنی آسانی سے پسپا کیوں ہو گئے
جانتا ہوں تم لڑنا نہیں چاہتے تھے
پھر ہر یدھ میں ہیرو کیوں بن جاتے تھے
مجھے دیکھو، میں بھی لڑنا نہیں چاہتا
لیکن مسلسل حالتِ جنگ میں ہوں
اور لگاتار پسپا ہو رہا ہوں
کیونکہ میں اپنے علاوہ کسی پر حاوی نہیں ہو سکتا
لیکن تم۔۔۔۔۔۔
سمجھ گیا
تمہاری کوئی محبوبہ تم سے ناراض تھی
اور تم اُس کے ہاتھ میں دل رکھے بغیر شہر پناہ سے نکل آئے تھے
تم تو جیسے برقی رتھ پر سوار تھے
کائنات کی حد پار کرتے ہوئے مڑ کر بھی نہ دیکھا
کہ رجزیہ اشعار پڑھنے والیاں کب کی خاموش ہو چکی تھیں
اتنا بھی نہ سوچا
کہ تمہاری محبوبائیں اور تمہاری نظمیں ایک دوسری کی کایا کلپ ہیں
جنھیں جدا کرنے کے لیے
نئی سیمیا، نئے کیموس کی ضرورت ہے
انہیں ایک ساتھ چھوڑ دینا
کہاں کی اذیت ناکی ہے!
اب وہیں رکو، جہاں تک پسپا ہو چکے ہو
اس سے آگے موت تمہارا پیچھا نہیں کرے گی
رکو جب تک کہ جنگ ختم نہ ہو جائے
لیکن یار، جنگیں اور نظمیں ختم کہاں ہوتی ہیں
یہ تو چلتی رہتی ہیں
جب تک کہ وقت ہتھیار نہ ڈال دے
تم بھی اب رکو اور انتظار کرو
جب تک کہ تمہاری ساری محبوبائیں
اپنا اپنا انتظار نہ تج دیں
اور میں، تمہارا جنگل ڈھونڈ کر
تمہارے پاس نہ آ جاؤں
پھر ہم مل کر
وہاں چلیں گے
جہاں کوئی یدھ ہے نہ شترتا
جیت ہے نہ شکست
پسپائی ہے نہ پیش قدمی
صرف ایک ملکوتی حسن ہے،
تمہارے اور میرے پسندیدہ خواب کی ابدیت ہے
آسمانی آبناؤں پر بنے ہوئے نیلگوں راستے ہیں
جن پر ہم باتیں کرتے، نظمیں سنتے سناتے
جوگرز پہنے بنا، ملگجی پاؤں اٹھائے بغیر, دائمی واک پر نکل جائیں گے!!

(صلاح الدین پرویز کی یاد میں)

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے