fbpx
نظم

بھگت / ایچ بی بلوچ

بھگت

وہ نیم دراز تھی
اپنے کھلے چہرے کی ہستی کے ساتھ
نور اس پر ایسے سرسرا رہا تھا
بڑے رقبے پر پھیلے فصل میں جیسے
کپاس کی سفیدی کو چنتی عورتیں سرسراتی نظر آتی ہیں

اس کے ہاتھ میں گوشہ عافیت تھا
شاید کوئی کاغذ کا ٹکڑا
کتاب یا رومال بننے کا فریم
لیکن مجھے پھر دوبارہ
اس کے نور اور ہاتھوں کی طرف دیکھنے کی طلب نہ ہوئی
کیونکہ مجھے یقین تھا
مکئی کے بھٹے کی طرح اس کے جسم کا ہر دانت مسکرا رہا ہوگا
اور جس عرصے میں وہ مصروف رہتی ہے
کام اور وقت کا وہ حصہ
نیک روحوں کی طرح وقت کی کشادہ راہ داریوں میں گھومتا رہتا ہے
میں تمہارے لیے چائے بناتی ہوں
اتنے بھٹکے ہوئے ہو ، اچھا کسی سفر پہ ہو
ہاں شاید
لمبا سفر، جس میں انسان اپنے نام کو اپنے مقصد جگہ فرض کر لیتا ہے
پکارنے کے بعد بھی
پھر کوئی مڑ کر نہیں دیکھتا
سخت جان اور کٹھن موسم میں
اس کے لبوں سے ایک گہری مسکراہٹ پھوٹی
جیسے کرخت پہاڑیوں کی دامن سے ایک شفیق دریا ہمیشہ کے لیے بہتا رہتا ہے

میں اسے
تھان سے کپڑے کی طرح کھینچتا اور ناپتا گیا
بازوں پر لپٹے ہر گز میں وہ مجھے ہر دفعہ الگ رنگ میں ملی
اس نے معنی کے معاملے میں
مجھے باکمال بنا دیا تھا

ایک دفعہ مجھے وہ
پنچوں کے گھیرے میں نظر آئی
اپنے گھٹنوں پر جھکی ہوئی
میں اسے کن اکھیوں سے دیکھتا رہا
اور ایک دفعہ سوچا
وہ کبھی بول نہیں پائے گی
کبھی کبھی ہم خاموشی کو اتنا گہرا کر دیتے ہیں
کہ ہمارے سروں کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا
لیکن اس کے پاس
پکارنے کے لیے بہت کچھ تھا
سب ستارے اس نے پیدا کیئے تھے
اور پاس بلانے کے لیے، جنہیں اس نے فرش پر بکھیر دیا تھا

پھر میں نے اسے قربان گاہ کی سیڑھیوں پر دیکھا
اس کی جسم کی کاٹھی کو لوگوں نے کسی بینر کی طرح پکڑ رکھا تھا
اس نے بڑی یقین اور ہمت کے ساتھ پکارا
بھگت !!!
وہ آواز
اس ساعت کے اندر
وہاں موجود کوئی سماعت شناخت نہیں کر پا رہی تھی
ایسا لگا وہ اپنے حواس کھو چکی ہے
یا اسے ابھی ابھی کسی اور جگہ سے اٹھا کر لایا گیا ہے
اس نے مجھے جھنجھوڑا
بھگت!!!
جب سفر لمبا، آسمان چھوٹا پڑجائے اور راستے آتشیں
تو انتظار برف کی ڈلی کی طرح پگھل جاتا ہے
لو !!! میں اسے صرف رومال میں سنبھال پائی ہوں!!

 

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے