ادھورے لمس کا دیوتا
علی زیوف
تمہارے بِنا اُداس رہتے ہیں
میرے تختۂ اوّل کے چار کُونے
جبکہ میری سیاہ لفظی مسکراہٹ کی
محرومی مٹانے سے قاصر ہے
تمہاری سفید باتوں کا سیاہ حاشیہ
جس کے کاسنی بول اِختِتامِیَہ ہرگز نہیں ہیں
کسی بھی رنجشِ بَے جَا کا
میری آنکھوں کا سٹیم انجن
اب تمہارے خوابوں کی سِہ آغازی بھاپ سے نہیں چلتا
قصہ گو (یعنی کہ میں)
ادھورے لمس کا دیوتا
جس نے مغلیہ دور کی کلموہی محبت
طاعون زدہ راتوں میں لکھنا چاہی
ہجر کا کابلی پلاؤ
کوفہ کے تَنُّوروں کی پُٹھ تپا کر پکانا چاہا
تن کا ماس تمہیں یاد کرتے ہوئے
بیتے دن کی راکھ میں مِلانا چاہا
روح کی عصری تھکن
ایک نئی محبت کی بازگشت میں اُتارنا چاہی
جس سے میل ملاپ کا تَصوُر مجھے
ڈرامیٹک کہانیوں کی عارضی ہیروئن سے ملا
جس کی مدھر دھڑکنیں جب وائیلن کی طرح سنائی پڑتیں
تب تمہارا آسمان
میرے ستاروں کی جانب غصے سے دیکھتا
قصہ گو (یعنی کہ میں)
ادھورے لمس کا دیوتا
جس نے ذاتی مفادات کو ہمیشہ وائلٹ کی زِپ سے لٹکایا
نینوں کی سرگوشی سے نہ کبھی دِیپ چَندی جلایا،
سکونِ نا آشنا سے بیزار
اپنے رتجگوں کے لیے ہمہ وقت نئی آسامیاں خالی کرتا رہا
پہلا اَصدَق بنتے ہوئے
راست بازی کا مظاہرہ کرتا رہا
اِس فسادی دنیا میں نینوا کا نوحہ پڑھتا رہا
ہمارے دلوں کے سٹیم انجن ابھی رُکے نہیں ہیں
میرے تختۂ اوّل پر
تمہاری سفید باتوں کے سیاہ حاشیے ترچھے لگے ہیں
جو تمہارے کامِل لمس کی ترسیل نہ ملنے تک
کسی بھی واضح شناخت میں نہیں آئیں گے