غزل
صابر ظفر
نہ میں خاک پر ، نہ میں چاک پر ، مرے کوزہ گر
میں کہاں ہوں گم، مجھے دے خبر ، مرے کوزہ گر
میں بہار اور خزاں سے قدرے الگ بھی ہوں
مرے موسموں سے کبھی گزر ، مرے کوزہ گر
مجھے خاک داں میں زیادہ دیر نہ قید رکھ
بڑی دور کا ہے مرا سفر ، مرے کوزہ گر
ہے خمیر میں یہ ترا ہی گیت بھرا ہوا
میں بجا رہا ہوں گھڑا اگر ، مرے کوزہ گر
جو بنایا ریت سے کوزہ وہ تو بکھر گیا
چلو نام لکھتے ہیں ریت پر ، مرے کوزہ گر
میں یہاں نہیں، میں وہاں نہیں، میں کہیں نہیں
مرے ہونے ہی سے نہ تو مکر ، مرے کوزہ گر
مری ساری عمر کٹی ہے اس کو سمیٹتے
ہے مرا گزارہ ہی خاک پر ، مرے کوزہ گر
ترے سارے کوزے مری طرح کوئ توڑ دے
تجھے دیکھوں اپنا بھی نوحہ گر ، مرے کوزہ گر
نہیں منتوں کے بغیر ملتی یہاں مراد
کہیں تو بھی کوئ پیالہ بھر ، مرے کوزہ گر
ابھی رہنے دے مجھے مست اپنی ترنگ میں
ابھی گردشوں سے نہ کر حذر ، مرے کوزہ گر
مرے روپ ہی سے عیاں کبھی ترا روپ ہو
مری خاک ہی سے کبھی ابھر ، مرے کوزہ گر
نہ بنوں میں ویسے ، بنانا چاہے تو جس طرح
رہوں تیرے پاس میں عمر بھر ، مرے کوزہ گر
مرے خشک و تر میں اگر ترا کوئ دخل ہے
مرے ساتھ جی ، مرے ساتھ مر ، مرے کوزہ گر
مرے جسم ہی کو فقط بنا نہ تو روغنی
مری روح میں بھی کبھی اتر ، مرے کوزہ گر
کئ گردشوں کی ابھی اسے ہے ضرورت اور
مری داستاں ہے طویل تر ، مرے کوزہ گر
سدا جس نے ڈھانپا برہنگی کے عیوب کو
وہ لباس – خاک کی تھی کتر ، مرے کوزہ گر
زر – خاک چھیننا اور پھر اس کو اجاڑنا
یہ سب اہل – خاک ہی کا ہے شر ، مرے کوزہ گر
مجھے بار بار صدائیں دیتی ہے میری خاک
ذرا آ ادھر مرے کوزہ گر ، مرے کوزہ گر
تری سمت بیر بہوٹی کوئ جو آئ ہے
اسے پیش عشق پیالہ کر ، مرے کوزہ گر
ابھی اصل شکل ہی شاید اس کو نہیں ملی
ابھی منتظر ہے ترا ظفر ، مرے کوزہ گر