غزل
جب شبِ غم میں ستارہ معتکف ہونے لگا
پھر ہمارا خواب ہم پر منکشف ہونے لگا
اس سے بڑھ کر اور کیا دوں اپنے ہونے کا ثبوت
وہ بھی میری ذات کا اب معترف ہونے لگا
یوں بدلتے جا رہے ہیں جسم کی مٹی کے رنگ
رفتہ رفتہ میں بھی خود سے مختلف ہونے لگا
جھوٹ کہنے کی روایت پڑ گئی ایسی یہاں
ہر کوئی اپنے کہے سے منحرف ہونے لگا
آئنہ خانے میں جب سے جھانک کر دیکھا شفیق
جو بھی پوشیدہ تھا ، وہ بھی منکشف ہونے لگا
ڈاکٹر شفیق آصف
Follow Us