نعت
نصیر احمد ناصر
دو جہانوں کا مدینہ ایک ہے
سب زمانوں کا مدینہ ایک ہے
ہفت گنبد، ہفت پیکر ایک ہیں
آسمانوں کا مدینہ ایک ہے
سب زمینیں، سرزمینیں ایک ہیں
خاکدانوں کا مدینہ ایک ہے
ایک ہیں رستے، پڑاؤ، منزلیں
کاروانوں کا مدینہ ایک ہے
ایک ہیں سب پا پیادہ اور سوار
ساربانوں کا مدینہ ایک ہے
ایک جانب ہیں رواں سب کشتیاں
بادبانوں کا مدینہ ایک ہے
سارے لفظوں کے معانی ایک ہیں
سب زبانوں کا مدینہ ایک ہے
ہر تیقن سے بڑا اس کا گماں
سب گمانوں کا مدینہ ایک ہے
کائناتیں جذب ہوتی ہیں وہاں
بے کرانوں کا مدینہ ایک ہے
خامشی آواز جیسی ہے وہاں
بے زبانوں کا مدینہ ایک ہے
دربدر پھرنے کی اب حاجت نہیں
بے ٹھکانوں کا مدینہ ایک ہے
فردِ واحد یا ہجومِ دیگراں
خاندانوں کا مدینہ ایک ہے
بچے، بوڑھے، عورتیں سب ایک ہیں
نوجوانوں کا مدینہ ایک ہے
دھوپ چھاؤں تو فقط اک بات ہے
سائبانوں کا مدینہ ایک ہے
خشتِ پختہ کا مکاں یا جھونپڑی
سب ٹھکانوں کا مدینہ ایک ہے
ہر سفر کا ایک ہی انجام ہے
داستانوں کا مدینہ ایک ہے
ارتکازِ نُور کی تقریب میں
تیرہ جانوں کا مدینہ ایک ہے
ایک ہیں ناصر نشان و نقش سب
بے نشانوں کا مدینہ ایک ہے