نعت
سعود عثمانی
یہ قرعہء افتخار یثرب کے نام نکلا
وداع کی گھاٹیوں سے ماہِ تمام نکلا
زمین ماں ہی نہیں ہے،خود بھی صحابیہ ہے
یہ رشتہ دو نسبتوں سے ذوالاحترام نکلا
جو ان پہ اترا، بشر سے ممکن کہاں تھا لیکن
خود ان کے لب سے بھی کیسا کیسا کلام نکلا
یہ لوگ دیں پر نہیں اُن آباء پہ مفتخِر ہیں
کہ جن کا ہر فخر ِ جاہلیت حرام نکلا
بہت سی دستاریں جوتیوں میں پڑی ہوئی ہیں
یہ بزم وہ ہے جو خاص پہنچا وہ عام نکلا
خدائے یکتا کا گھر بھی جب اک صنم کدہ تھا
تجھی سے توحید کا مکمل نظام نکلا
فقط تریسٹھ برس نے عالم بدل دئیے ہیں
جہانِ فانی سے کیا جہانِ دوام نکلا
یہ نہر ممکن ہے حوض کوثر سے پھوٹتی ہو
میں تشنہ اترا تھا نعت میں، شاد کام نکلا
ہر اک مکمل کنایہ ، ہر کامل استعارہ
نبی کی توصیف میں جب آیا تو خام نکلا
مری تو پونجی تھی چند اشعار چند آنسو
تمام سرمایہ عشق میں ناتمام نکلا
میں آج تک تیرے نام کا رزق کھا رہا ہوں
تجھی سے نکلا جو دین و دنیا کا کام نکلا
حضور ِ رب جب بلائے جاتے تھے نعت گو بھی
تو ایک صف سے سعود ادنیٰ غلام نکلا