افسانہ

مجھے کیا ! / اریبہ بلوچ

مجھے کیا!

وہ کالونی کے ایک بلاک میں واقع چھوٹے سے پارک کے باہر اپنی گاڑی کھڑی کیے، نشست پر سر ٹکائے، سگریٹ کے کش لگانے میں مصروف تھا۔گاڑی میں سگریٹ،کار پرفیوم کی مہک اور عابدہ پروین کا صوفیانہ کلام نعرہ مستانہ ایک کیفیت کو جنم دے رہے تھے۔ماضی کے بہت سے رقص بسمل اس کی آنکھوں کی پتلیوں پر بس شروع ہوا چاہتے تھے۔وہ ایک ٹیکسی ڈرائیور تھا ۔ابھی کچھ منٹ قبل اس نے قریبی مکان میں سواری کو اتارا تھا اور کچھ دیر یہیں رکنے کا فیصلہ کیا تھا۔جاڑے کا موسم تھا اور شام اپنے سرمئی غازے کے ساتھ اتر رہی تھی۔ پارک میں اس سمے کوئی نہیں تھا۔کالونی کے اس بلاک میں زیادہ تر چھوٹے گھر تھے جن میں زیادہ تر بوڑھے والدین اپنے بچوں ’تنہائی‘اور ’انتظار‘ کے ساتھ رہتے تھے۔ سڑک بھی ویران مانگ کی مانند اداسی کا سیندور بھرے دکھائی دیتی تھی یا پھر شاید اداسی اسکی دید میں کچھ یوں پرو دی گئی تھی کہ اب تمام مناظر اسے اداسی کی دبیز دھند میں لپٹے نظر آتے تھے!
عین سامنے والے گھر کے گیٹ سے ایک برقعہ پوش لڑکی نکلی جسے ایک لڑکے نے تھام رکھا تھا۔ لڑکی کی چال بے ترتیب تھی جیسے کسی نشے کے زیر اثر ہو۔
’ لڑکیاں برقعہ اوڑھ کر شاید سمجھتی ہیں کہ انہوں نے اپنی پہچان کے ساتھ ساتھ ماں کی فکر مندی اور باپ کی وہ دید بھی اس سیاہ برقعے کی تہوں میں چھپا دی ہے جن سے مان چھلکتا ہے۔‘ لڑکی کو دیکھ کراس نے تحقیر آمیز انداز میں سوچتے ہوئے سر جھٹکا۔
اس کی ٹیکسی سے کچھ ہی دُوررک کر لڑکے نے دونوں اطراف بے تابی سے دیکھا ،چہرے پر کچھ پریشانی لہرائی، جیکٹ کی جیب سے موبائل نکال کر کان پر دھرا۔
’’فرقان تو ابھی تک آیا کیوں نہیں گاڑی لے کے؟‘‘ ٹیکسی والے کو اس لڑکے کی آواز صاف سنائی دی۔
اور پھر ایک کمینی ہنسی!
’’ہاہاہا ۔۔۔مس ایٹی ٹیوڈ !‘‘لڑکی کے شانے کو مزیدمضبوطی کے ساتھ تھامتے ہوئے اس کے حلق سے ایک حقارت بھراقہقہہ برآمد ہوا۔
’’ایٹی ٹیوڈ۔۔۔ مائی فٹ!‘‘
اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ لڑکی کو اس کی ٹیکسی کی طرف لے آیا اور اس سے پوچھے بغیر پچھلی نشست پر لڑکی کو یوں پھینکا جیسے کوئی بچہ ناراضی میں اپنے بے جان کھلونوں کو پھینکتا ہے!
’’ گاڑی !‘‘لڑکی کے ساتھ پچھلی نشست پر بیٹھتے ہی اس نے ایک ہزار روپے کا نوٹ ٹیکسی ڈرائیورکی طرف اچھالتے ہوئے حکم صادر کیا۔’’جلدی سے گاڑی چلاؤ ، وقت نہیں ہے !‘‘
ڈرائیور پیچھے مڑا ایک نظر اس گھٹڑی بنے وجود پر ڈالتے ہوئے ہزار کا نوٹ واپس لڑکے کی جانب بڑھاتے ہوئے بولا:
"ہم نہیں جا سکتا صاحب!”
لڑکے نے فورا اپنی پینٹ کی جیب سے ریوالور نکالا اور اس کے سر پہ رکھ دیا۔
"میں کہتا ہوں گاڑی چلاؤ۔”
اب کی بار وہ غصے سے چیختے ہوئے بولا۔
لڑکی نے ایک لمحے کو آنکھیں کھولی اور اگلے ہی لمحے پھر بند کر لی۔
ڈرائیور نے اپنے سر پہ دھرے اجل کے ہتھیار کو آنکھیں اٹھا کے دیکھتے ہوئے مکمل اطمینان سے کہا :
"ہم گاڑی نہیں چلائے گا صاحب!”
فائر کی گونج دار آواز گونجی اور گرم لوہے کے ٹکڑے اس کے سر میں پیوست ہونے لگے گرم خون اس کے چہرے پہ بہنے لگا۔اس کی گاڑی کا دروازہ کھلا اور اسے گاڑی سے باہر دھکیل دیا گیا اور اگلے ہی لمحے اس کی گاڑی اس کے پاس سے زناٹے بھرتے ہوئے گذر گئی۔
اس نے پیر کے انگوٹھے سے روح نکلنے کے عمل کو اس کی تمام تر ناقابل بیان اذیتوں کے ساتھ سہا اور اپنی روح کے پرندے کو اپنے وجود سے نکل کے اڑان بھرتے ہوئے دیکھا؛ ہاں وہ مر چکا تھا!!!
اس کا دماغ ابھی مزید دس منٹ تک زندہ تھا۔وہ سوچنے لگا کہ اس نے آج سواری کو انکار کر دیا لیکن یہ انکار اس نے یونہی نہیں کر دیا تھا وقت نے اسے یہ سبق بڑی قیمت کے بعد سکھایا تھا انسان خود سمجھ جائے تو اسی میں مکمل بھلائی پر اگر وقت سمجھائے اور سکھائے تو اس کا وہ بھاری تاوان وصول کرتا ہے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے ایک نواحی بستی میں ایک سواری کو جیسے ہی اتارا تو ایک مرد ٹیکسی کی جانب آگیا اس نے ایک چھوٹی بچی کو اٹھا رکھا تھا اس نے ایڈریس سمجھایا اور گاڑی کی پچھلی نشست پر بچی سمیت براجمان ہو گیا۔
"انکل ہم کہاں جا رہے ہیں ؟”بچی نے اس مرد سے سوال کیا ڈرائیور نے بھی اک نظر بیک ویو مرر میں اس بچی کو دیکھا نیلے رنگ کی فراک پہنے اور دو پونیاں کیے وہ پیاری سی بچی کوئی پانچ سال کی لگتی تھی۔
"انکل ہم کہاں جا رہے ہیں ماما مجھے ڈھونڈ رہی ہوں گی۔”بچی نے اب ذرا رونی شکل بنا کے اس مرد سے پوچھا ڈرائیور نے اب کے ذرا تیکھی نظروں سے بیک ویو مرر میں دیکھا اس مرد نے بچی کو اپنی گود میں بٹھا رکھا تھا اور اس کی آنکھوں میں عجیب رنگ تھے اک لمحے کو ڈرائیور لرز گیا اک خیال کے تحت لیکن جلد ہی اپنی توجہ ڈرائیونگ پر مرکوز کر لی۔
"میں اپنی گڑیا کو چاکلیٹ کی دنیا میں لے کر جا رہا ہوں وہاں ہر چیز چاکلیٹ کی بنی ہوئی ہے گھر ان میں کرسیاں ٹیبل بیڈ سب چاکلیٹ کے بنے ہوئے ہیں وہاں درخت بھی چاکلیٹ کے ہیں اور وہاں پیٹس بھی چاکلیٹ کے بنے ہوئے ہیں”۔
"سچ انکل ہم کوکو ورلڈ میں جا رہے ہیں وہی کوکو ورلڈ جو میں نے ٹی وی میں دیکھا تھا؟” بچی خوشی سے اچھل پڑی تھی۔
"انکل سمیرکو کیوں نہیں ہم لے کے جا رہے کوکو ورلڈ میں؟”
نہیں ابھی ادھر صرف آپ اور میں جائیں گے”۔
"انکل آج آپ نے مجھے مینگو جوس نہیں دیا۔”
"گڑیا وہ کل آپ شاپ پر آؤگی تو وہ تب مل جائے گا۔”
ڈرائیور سب معاملہ سمجھ چکا تھا اور اب اس کے دل کی حالت عجیب ہو رہی تھی اس ایڈریس کو ذہن میں دہرایا وہ ایک چھوٹی سی بستی کا پتہ تھا جدھر آبادی بھی نہایت کم تھی اکا دکا گھر تھے اب وہ سمجھ پا رہا تھا کہ ویرانوں میں وحشت کیوں محو رقص ہوتی ہے کیونکہ ادھر درد ناک لمحے معلق ہوتے ہیں سسکیوں کے گھنگھرو ہوتے ہیں زندگی کے بعد اور موت سے پہلے کی موسیقی ہوتی ہے اور وحشت ناچتی رہتی ہے؛ بس اک لمحے کو اس کا دل چاہا وہ گاڑی روک دے
پر کیوں میں کیوں گاڑی روکوں یہ جو میں پچاس کلومیٹر ڈرائیو کر چکا ہوں اس کی رقم پھر مجھے کون ادا کرے گا مجھے اپنی سرطان زدہ ماں کا علاج کروانا ہے۔یہ سوچ کر وہ خاموشی سے ڈرائیو کرتا رہا اور ہیبت ناک شکل والا ابلیس اسٹیرنگ سے لپٹ کے قہقہے لگا رہا تھا کہ خدا کے بندوں میں ایک انساں کم ہوا اور اس کے قافلے میں ایک اضافہ اور ہوا۔اور بے شک اس کے بندے خدا کے بندوں سے زیادہ تھے!!! اس نے مقررہ پتے پر گاڑی روک دی۔
اس مرد نے کرائے کی مطلوبہ رقم ادا کی اور آگے اک پرانے بوسیدہ مکاں کی جانب بڑھ گیا اور بچی کی آواز ڈرائیور کے کانوں میں پڑی”انکل انکل کوکو ورلڈ کہاں ہے”۔
اور یہ سوال صدیوں کے لیے اس کائنات میں معلق رہنے والا تھا!!!
ڈرائیور نے گاڑی تھوڑی سی ڈرائیو کے بعد روک دی۔مجھے کیا کرنا چاہیے؟ پولیس کو اطلاع۔لیکن کیا پتا ایسا نہ ہو میں غلط سمجھ رہا ہوں۔۔بچی اس مرد کے ساتھ بہت آشنا تھی کیا پتا وہ اس کا چاچو یا ماموں ہو۔ہاں بالکل ایسا ہو سکتا ہے۔

ابلیس پچھلی نشست پر بیٹھا ہنس ہنس کے لوٹ پوٹ ہو رہا تھا ارے او میرے پیروکار تو کیا سمجھتا ہے کہ ابلیس کے پیروکار چاچے ،مامے نہیں ہو سکتے؟
نہیں نہیں مجھے پولیس کو اطلاع کرنی چاہیے اس نے موبائل نکالا۔
فرشتے خوش تھے کہ خدا کے بندوں میں ایک بندے کا اضافہ ہو رہا۔
اس نے موبائل واپس رکھ دیا اگر پولیس کو مطلع کیا تو مجھے بھی یہیں جانے کتنی دیر رکنا پڑے گا اور اتنا تو وقت نہیں ہے میرے پاس۔اور میری تو ویسے بھی کوئی غلطی نہیں ہے میں ڈرائیور ہوں اور میں تو صرف اپنی ڈیوٹی نبھا رہا ہوں۔
"بھائی ناظم چوک جانا ہے ؟”
اس نے دیکھا دو عورتیں اس سے مخاطب تھیں۔
فرشتے اسے نور کی طرف بلا رہے تھے اور ابلیس اسے چمکدار آگ کی طرف کھینچ رہا تھا۔اور اس نے ابلیس کا ہاتھ تھام لیا اور ناظم چوک کی طرف گاڑی کو بڑھا دیا۔
اگلے دن اخبار میں ایک خبر نے اسے اداس ضرور کیا ایک معصوم پھول کو اک درندے نے مسل کر لاش گٹر میں پھینک دی تھی ساتھ بچی کی تصویر بھی لگی تھی اس نے نیلا فراک پہنا تھا اور دو پونیاں کی ہوئی تھیں۔
پر وہ تو اک ڈرائیور ہے اس کا کام ہے ڈرائیو کرنا اور اس نے تو بس وہی کیا جیسے انگور فروش کا کام ہے انگور بیچنا کون ان انگوروں سے شراب بناتا ہے یہ تو اسکا مسئلہ نہیں ناں!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چوک سرور سے کچھ فاصلے پر اس نے اپنی پیلی ٹیکسی کو اک کتابوں کی دکان کے باہر پارک کیا۔دوپہر کا وقت تھا سرما کی دھوپ گاڑی کے ادھ کھلے شیشے سے اندر پڑنے لگی تو قرار اس کے سرد وجود کا گھیراؤکرنے لگا۔سرور چوک کے دائیں جانب بڑی شاہراہ تھی جس کے اطراف میں شہر کے بڑے تعلیمی ادارے تھے مختلف سکول اور کالج اور اب تقریبا تمام اداروں میں چھٹی کا وقت تھا سو اب اسے سواری ملنے کا قوی امکان تھا اس لیے وہ کچھ فاصلے پر ادھر ٹہرا تھا۔پھولوں کی دکانیں اس جانب بہت زیادہ تھیں کہ بائیں جانب شہر کا بڑا قبرستان تھا اور کچھ ہی فاصلے پر اک میرج ہال بھی!! قبرستان جانے والے بھی یہیں سے پھول لیتے تھے اور میرج ہال جانے والے بھی۔آہ۔۔۔محبتوں اور دعاؤں کے پھول جتنے کم ہو رہے ہیں،پھولوں کی دکانیں اتنی ہی بڑھتی جا رہی ہیں!!!
"ٹیکسی؟ٹرانسپورٹ؟”گاڑی کے شیشے سے اک اونچی لمبی کرخت چہرے والی عورت نے جھانکتے ہوئے کہااور بغیر اس کے جواب کا انتظار کیے اس نے گاڑی کا پچھلا دروازہ کھولا اور اندر تیزی سے بیٹھ گئی جب وہ بیٹھ گئی تو اسے اندازہ ہوا کہ اس کے ہمراہ اک سیاہ برقعے میں ملبوس کمزور سی لڑکی بھی ہے۔عورت نے موبائل کان سے لگا رکھا تھا۔اس نے دو نیلے نوٹ ڈرائیور کی جانب بڑھائے اور بہت تیزی سے بولی:
"جلدی کرو گاڑی چلاؤ۔”
ڈرائیور نے پہلے اک نظر کچھ حیرانی سے رقم کو دیکھا اور پھر بولا:
"جی بہتر باجی لیکن جانا کہاں ہے؟”
"میں بتاتی ہوں فی الحال تم گاڑی چلاؤ۔”
اس بار وہ پہلے سے بھی زیادہ تیزی سے بولی آواز میں کرختگی اور غصے کا عنصر نمایاں تھا۔
اس نے گاڑی کو سامنے کی سڑک پر بڑھا دیا۔
"لیفٹ؟”
وہ کال پر گویا ہوئی۔
"ڈرائیور یہاں سے لیفٹ ہو جاؤ۔”
اس نے گاڑی کو بائیں جانب کی سڑک پر ڈال دیا۔
’’Church?which church‘‘
(گرجا گھر؟کونسا گرجا گھر؟)
ڈرائیور نے محسوس کیا کہ وہ عورت کال پر بات مسلسل انگریزی میں کر رہی تھی وہ ایف اے پاس ہونے کی بدولت انگریزی کوسمجھ پا رہا تھا۔
"ڈرائیور قریبی چرچ کی جانب !”
چرچ بالکل مختلف سمت میں تھالیکن وہ عورت اسے چونکہ پہلے ہی دو نیلے نوٹ  تھما چکی تھی سو اس نے خاموشی سے گاڑی ریورس کر کے گرجا کی جانب بڑھا دی۔
گرجا اب بس قریب ہی تھا۔
’’Now Where?‘‘
(اب کہاں ؟) وہ دوبارہ کال پر بولی۔
"ڈرائیور گرجا کے دائیں سڑک پر۔”
ڈرائیور نے اک نظر بیک ویو مرر میں دیکھا عورت نے اپنا ایک بازو لڑکی کے گرد رکھا ہوا تھااور اس کے کندھے کو مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔لڑکی کی گردن ایک جانب کو ڈھلکی ہوئی تھی اور جب سے وہ گاڑی میں بیٹھی تھی لڑکی کی کوئی آواز ڈرائیور کے کانوں میں نہ پڑی تھی۔تو کیا اسے ڈرگز دی گئی تھی؟
وہ یہ خیال سوچ کے عجیب کشمکش کا شکار ہو گیا۔
گرمی کے احساس نے اسے آن گھیرا تو اس نے شیشہ نیچے کر دیا کچھ لوگوں کی شعاؤں کی رینج اور فریکیونسی دونوں زیادہ ہوتی ہیں جب وہ روح پر اثر انداز ہوتی ہیں تو روح اک خاص جذبے سے سلگنے لگتی ہے پھر باہر کی برف باری بھی اندر کی چنگاریوں پر رتی برابر بھی اثر انداز نہیں ہوتی!!!
’’Haha tell Delta Romeo that egs are ready‘‘
کوڈ ورڈ؟یعنی ڈی آر۔۔۔ڈی آر یعنی ڈاکٹر؟
ڈرائیور اپنی سوچوں میں غلطاں تھا کہ عورت چیخی:
بس بس یہاں روک دو فورا۔
ڈرائیور نیم مخبوط الحواسی کے عالم میں گاڑی کو جیسے ہی بریک لگائی ایک کالے رنگ کی گاڑی ان کے عین برابر میں آکے رکی۔گاڑی سے دو سیاہ پوش آدمی بہت تیزی سے نکلے جنہوں نے اپنے چہروں پر ماسک چڑھا رکھا تھا عورت تیزی سے کالے رنگ کی گاڑی کا پچھلا دروازہ کھول کے اندر بڑھ گئی وہ دو مرد آگے بڑھے اور اس کی ٹیکسی کی پچھلی جانب سے اس لڑکی کو اٹھایا اور جب وہ اسے اپنی گاڑی میں منتقل کر رہے تھے تو لڑکی کے چہرے سے نقاب الٹ گیا ڈرائیور کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا اور اک چیخ  اس کے حلق سے نکلی۔
"فائقہ۔۔۔۔”
فائقہ اس کی چھوٹی بہن!!!

Related Articles

رائے دیں

Check Also
Close
Back to top button