fbpx
افسانہ

رونے کے لیے چاہیے کاندھا مرے دوست / تحریر : محمود ظفر اقبال ہاشمی

اِدھر سے وہ نکلی اور اُدھر سے وہ چلا آرہا تھا......سڑک کو اپنی تنہائی مٹنے کی وجہ بنتی نظرآئی توخوشی سے کھِل اٹھی!

شام کا زہرمٹیالی ٹہنیوں میں اتر چکا تھا۔تھکے ہارے طیّوراپنے اپنےآشیانے میں بیٹھے اپنے نوزائیدہ بچوں کو دن بھر کی رُوداد سنا رہے تھے اور فضا میں ان کی اس گفتگو کا شور پھیلتے ہوئےمضمحل اندھیرے کا بیک گراؤنڈ میوزک محسوس ہوتا تھا۔گرلز ہاسٹل کے سامنے گھنے درختوں کی قطار کے پیچھے جگنو لمبی گھاس کے اُوپر سرِشام اپنی آدھی روشنی ڈھونڈنے نکل آئے تھے ۔چونکہ سرما کے عروج میں راہ گیر سرِشام ہی سڑک کو تنہا چھوڑ جاتے ہیں چنانچہ گرلز ہاسٹل اور درختوں کے عین درمیان گہری سوچ میں گم خالی اور اداس سڑک تھی اور کسی ویلن کی طرح قہقہے لگاتا ہوا اندھیرا منظروں اوران کے اصل رنگوں کو فتح کرتا چلا جا رہا تھا!

اِدھر سے وہ نکلی اور اُدھر سے وہ چلا آرہا تھا……سڑک کو اپنی تنہائی مٹنے کی وجہ بنتی نظرآئی توخوشی سے کھِل اٹھی!

وہ دونوں ہاتھ اپنی بغلوں میں چھپائے جونہی سڑک پر آئی، جیسے اس کے زخم کا منہ پھر سے کھل گیا اور آنسو قطار در قطار اس کی آنکھوں سے نکل کرسڑک کے کاندھوں پر جذب ہونے لگے۔ملگجا سا اندھیرا تھا اور سامنے سے وہ اپنی دُھن میں چلا آرہا تھا۔ نئی نئی محبتوں کی سرشاری میں مست! اُسے اس راستے سے نہیں آنا تھا مگر یونہی بلاسوچے سمجھے اس راستے کو شارٹ کٹ سمجھتے ہوئے وہ اپنے ہاتھ پتلون کی جیبوں میں دبائے اس طرف نکل آیا تھا۔ اس سڑک کے اختتام پر عین سامنے بس سٹاپ تھا جہاں اسے اپنی بس پکڑنا تھی!

وہ اس پیاری سی لڑکی سے ابھی کچھ ہی دُور تھا کہ ہلکے ہلکے اندھیرے میں ایک ہلکورے کی آواز نے پل بھر کے لیے اس کا رابطہ اپنے رنگین خیالات سے منقطع کر دیا۔ اس نے سامنے سے اپنی طرف آتی ہوئی لڑکی کی طرف دیکھا جوپھوٹ پھوٹ کر روئے چلی جا رہی تھی ۔ہلکے ہلکے اندھیرے میں آنسو اس کے بھیگے ہوئے عارض پر جگنوؤں کی طرح چمک رہے تھے اور پھر چند لمحوں بعد جب وہ اس کے پاس سے گذرا تو اپنے کسی دکھ سے لڑتی ہوئی اس لڑکی کو شاید اندازہ بھی نہیں ہو سکا کہ ایک اجنبی اس کے پاس سے گذرتے ہوئے اسے کتنی حیرت بھر ی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک بہت خوبصورت اور اُجلی رنگت والی لڑکی تھی مگرکسی دکھ کی نیلاہٹ نے اس کی خوبصورتی کو گہنا دیا تھا!

’اتنی پیاری سی لڑکی…..تنہا سڑک پر…..آخر کیوں اس طرح روئے چلی جا رہی ہے؟‘

آنسو،روتے اور دُکھوں سے لڑتے ہوئے لوگ ہمیشہ اسے مضطرب کر دیا کرتے تھے!

اس نے مڑ کر دیکھا اور اپنی مخالف سمت پر جاتی ہوئی اس لڑکی کے متعلق متفکر انداز میں سوچا مگر وہ دنیا مافیہا سے بے خبر بار بار اپنے بازو سے آنسو پونچھتے ہوئے اب مخالف سمت میں چلی جا رہی تھی!

وہ کچھ چلا، پھر مڑا اور اسے پھر دیکھا!

اب وہ نسبتاً گہرے اندھیرے میں ملفوف ایک کانپتا اوربھیگا ہوا سا وجود لگ رہی تھی۔ وہ کچھ قدم اور بس سٹاپ کی طرف چلا، پھر مڑکر اسے دیکھا۔اب وہ مڑ کر پھر واپس آ رہی تھی، نظریں سڑک پر گاڑے بدستور اپنے آنسوؤں سے مات کھا رہی تھی!

چند قدموں کے فاصلے پر گرلز ہاسٹل کی سڑک ختم ہونے والی تھی اور پھر بڑی سڑک پار کر کے وہ اپنے بس سٹاپ پر جا پہنچتا ۔ بس اسے وہیں تک جانا تھا مگر اس کے قدم جیسے سلب ہو گئے تھے اور چند قدموں کی مسافت کو اس ایک سوال نے اس قدر طوالت دے ڈالی تھی کہ سامنے چند قدموں کے فاصلے پر واقع بس سٹاپ اسے دنیا کا دوسرا کونا لگنے لگا تھا!

وہ وہیں رک گیااوراس نے ایک بار پھر مڑ کراس دل گرفتہ لڑکی کی طرف دیکھا!

دفعتاً اس کا جی چاہنے لگا کہ وہ اس کے پاس جائے اور اس سے پوچھے کہ ایسا کون سا دکھ ہے جو اس کی خوبصورت آنکھوں سے یوں رِستا چلا جا رہا ہے مگر اگلے ہی لمحے اسے لگا جیسے نہ تو وہ اس تک پہنچ سکتا تھا اور نہ ہی اس سے کچھ پوچھ سکتا تھا ۔ چند قدموں کے فاصلے کے باوجود ان دونوں کے درمیان ان گنت دیواریں حائل تھیں!

اجنبیت کی دیوار!

مخالف اصناف کی دیوار!

اخلاقیات کی دیوار !

جھجھک کی دیوار!

اندھیرے کی دیوار!

ڈر کی دیوار!

اسے لگا کہ وہ اتنی ساری دیواریں نہیں گرا سکتا سو بوجھل قدموں کے ساتھ سڑک پار کر کے اپنے بس سٹاپ پر جا کھڑا ہوا اور سامنے ٹہلتی ہوئی اس آزردہ لڑکی کو دیکھنے لگا،اس کی بس آئی اور چلی گئی مگر وہ وہیں پریشان کھڑا اس لڑکی کو دیکھتا رہا۔وہ دُور سے اس لڑکی کو لاکھوں دلاسے سوچوں کے ذریعے پہنچانے لگا!

’رومت پیاری لڑکی!……دُکھ زیادہ ہونے لگیں تو سُکھ کہیں پاس ہو ہوتے ہیں مگر آنسوؤں کے شور میں ہمیں دکھائی نہیں دیتے……اور جب کھڑکیاں دھندلا نے لگتی ہیں تو کمرے کے اندر روشنی کی ضرورت اچانک بڑھ جاتی ہے!‘

’رومت پیاری لڑکی!……حوصلے پازیب کی طرح ہوتے ہیں……اُداسی میں بھی بالکل اسی طرح خوبصورت لگتے ہیں جیسے سرما کی کسی رات کے پچھلے پہر ہَوا جو چلمنوں سے ٹکرا کر ایک خوبصورت دھن تخلیق کرتی ہے……آنسو آسیب کی طرح ہوتے ہیں،اداسی میں بھی اتنے ہی مہیب لگتے ہیں جیسے کسی اُجڑے ہوئے مکاں میں کوئی فسوں زدہ چراغ تھرتھراتا ہے!

’پلیز چپ ہو جاؤ پیاری لڑکی…….کچھ آنکھیں بھیگنے کے لیے نہیں ہوتیں…….کچھ ہلکورے سن کر کڑی دھوپ میں بھی آسمان کی رنگت قرمزی سی ہونے لگتی ہے……اس روز چاند بھی نہیں نکلتا……کچھ رخسار بھیگنے کے لیے نہیں ہوتے اور اگر بھیگ جائیں تو برساتیں زمین کا رخ نہیں کرتیں……راتیں بھی بھیگنے سے گھبراتی ہیں!‘

’پیاری لڑکی……اگر میری بات نہیں سمجھتیں تو وہ دیوار سے لگی چنبیلی کی طرف دیکھو……وہ زرد ہو چلی ہے…….جب چنبیلی زرد ہونے لگتی ہے تو یہ دستکِ بہار ہوتی ہے…….یہ زندگی ہے، یہ اسی طرح چلتی ہے……جب کوئی خلش کاجل کو بار بار پھیلانے لگے تو سمجھ لوکہ کہیں پاس ہی قرار ہے!‘

جب دلاسے ختم ہوگئے تو ان کی جگہ دعاؤں نے لے لی!

’اے نیلی چادر کے خالق!……اپنی اتنی خوبصورت تخلیق کا دکھ سن!……تُو تو کسی کو اس کی برداشت سے بڑھ کے کوئی تکلیف نہیں دیتا……اس کے لیے کہیں سے کوئی کاندھا یا پھر کوئی مرہم بھیج میرے خدا!‘

مگر کچھ بھی نہ ہوا اور وہ لڑکی اسی طرح روتے ہوئے ٹہلتی رہی اور اپنا دکھ سڑک پر بچھاتی رہی!

ایک اور بس آئی اور چلی گئی!

اور پھر اس نے ایک فیصلہ کر لیا کہ وہ تمام دیواریں گرا کر اس لڑکی کے پاس جائے گا، کسی بندش،ردعمل اور نتیجے کی پرواہ کئے بغیر اس سے کہے گا……

’اپنا دکھ مجھے دے دو……مَیں دوسروں کے دکھ سنبھالنا خوب جانتا ہوں……شروع سے مَیں نے یہی کیا ہے ……مَیں جب بھی کسی کا دکھ بانٹتا ہوں میرے اثاثے بڑھ جاتے ہیں!‘

یہ سوچ کر اس نے ہمت کر تے ہوئے بے ترتیب دھڑکنوں کے ساتھ اس لڑکی کی طرف اپناسفر شروع کیا ۔ہربڑھتے ہوئے قدم پر جیسے جیسے وہ اس کے قریب ہوتی چلی جا رہی تھی اسے اپنا ارادہ بھی مزید مضبوط محسوس ہونے لگا۔وہ سوچنے لگا کہ وہ اس لڑکی سے کیسے بات شروع کرے گا، اس سے کیا کہے گا اور کس طرح ہمدردی کا مرہم اس کے دُکھ پر رکھے گا!

اور پھرجب اس کا اور لڑکی کا فاصلہ محض چند قدم رہ گیاتو……!

دفعتاً ہاسٹل سے ایک اور لڑکی باہر نکلی اور اسے دیکھ کر تیزی کے ساتھ روتی ہوئی لڑکی کی طرف آئی۔اس لڑکی کو اس کی جانب بڑھتے دیکھ کر اس کے بڑھتے قدم وہیں تھم گئے۔

اس لڑکی نے روتی ہوئی لڑکی کو محبت کے ساتھ اپنے ساتھ لگایا، اس کے آنسو پونچھے اور اپنے بازو اس کے گرد حمائل کرتے ہوئے اندر اپنے ساتھ لے گئی۔ جاتے جاتے پشت پر اسے اس لڑکی کی محض چند ہی باتیں سنائی دیں!

’مَیں نے تمہیں کہاں کہاں نہیں ڈھونڈا……پلیز چپ ہو جاؤ……اتنی پیاری آنکھیں رونے کے لئے نہیں ہوتیں……مَیں اندازہ کر سکتی ہوں کہ تمہارا دکھ کتنا بڑا ہے مگر میری جان…..دکھ کتنا ہی بڑا اورزخم کتنا ہی گہرا ہو ،وہ زندگی سے نہیں جیت سکتا……دئیے کی لَو کو دیکھ لو……اتنی چھوٹی سی ہوتی ہے مگر سارے جہان کے اندھیرے مل کر بھی اسے شکست نہیں دے سکتے!……پلیز چپ ہو جاؤ مَیں تمہاری آنکھوں میں آنسو نہیں دیکھ سکتی…..!‘

اور پھرجب دھیرے دھیرے تشفی دیتی اور معدوم ہوئی وہ آواز اندھیرے میں گھل گئی تو اس نے مسرت اور طمانیت سے بھرپور ایک لمبی سانس بھری، پہلے اوپر آسمانوں کی طرف اور پھر دیوار سے لگی زرد چنبیلی کو دیکھ کرمسکرا دیا!

دفعتاً بس کے ہارن نے اسے چونکا دیا…..

اس کی بس آ گئی تھی!!!

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے