حافظ کی بھولی صورت، بھیگے گال اور اس پر اس کی صدا۔سکّے اور نوٹ اس کے آگے بچھے کپڑے پر برابر گر رہے تھے۔وہ خاموش ہوتا تو ہجوم میں سے ایک ہاتھ اس کی کمر پر دھپ سے پڑتا۔اندھا نہ ہوتا تو جیب کترا ہوتا۔یہ عرس اور میلے ان کے استادوں کے سیزن تھے۔اس کا گلا صدائیں لگانے سے خشک ہو چلا تھا۔وہ دو بار کھانسا تو پھر اسی نادیدہ ہاتھ نے لال شربت کا گلاس اس کے ہاتھوں میں تھما دیا جس میں تخم ملنگاں تھا۔
سب چہرے ایک سے تھے جن پر حسرتوں کی کھلی قبروں سی آنکھیں اور مسافتوں کی دھول تھی۔تہی داماں اپنی مرادوں کا پیچھا کرتے یہاں تک چلے آئے تھے۔انہی میں ایک چہرہ استاد کا تھا جو ایک کونے میں کھڑا ماچس کی ڈبیا پر اپنی انگشِت شہادت کے سُرخ رنگے ناخن سے مسلسل ٹھک ٹھک کر رہا تھا۔اس کا ہاتھ رکتا تو اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا ایک لڑکا گردن کے رومال کو گھماتا اس کی آنکھ کیاشارے پر زائرین کے اژدھام میں رینگنے لگتا۔
کسی ایسے ہی عرس پر استاد کو حافظ ملا تھا۔کاغذی لفافے میں جلیبیاں زمین پر گری پڑی تھیں اور مکھیاں اس کے چہرے پر لگے شِیرے سے چپکی تھیں۔وہ ایک ہی جگہ کھڑا اماں اماں پکار رہا تھا۔استاد نے اس کے گرد ایک چکر لگا کر آس پاس کا جائزہ لیا اور اس کی انگلی تھام کر وہاں سے نکل آیا۔اس کے دل کو جیسے قرار آ گیا۔وہ دواڑھائی برس کا تھا جب پہلی بار اسے اپنے سینے پر سلایا اور پال پوس کر اب دھندے پر لگایا تھا۔نامعلوم اسے یہ احساس کبھی نہیں ستایا کہ اس نے حافظ کے ساتھ زیادتی کی تھی بلکہ ہمیشہ ایسا ہی لگا جیسے دو دھتکارے ہوئے لوگ ایک دوسرے سے مانوس ہو گئے تھے۔
’’استاد ہم ابھی لنگر سے ہو کر آتے ہیں۔‘‘گہرے سبز رنگ کی شلوار قمیض پہنے ایک نو عمر لڑکے نے اسے خیالوں سے نکالا تو وہ چونک کر سیدھا کھڑا ہو گیا۔
’’آں۔۔۔ہاں ٹھیک ہے۔۔۔جمالے کو بھی ساتھ کر لے۔۔۔حافظ کو میں دیکھتا ہوں۔‘‘
حافظ بورے پر بیٹھا نان حلیم کھا رہا تھا۔شانی اس کی اب تک کی دیہاڑی سنبھال چکا تھا۔
’’بھئی عیش ہیں تیرے۔۔۔زیادہ مت کھائیو نیند پٹکا لگا دے گی۔‘‘ استاد خوشدلی سے کہتے ہوئے اس کے ساتھ کھانے میں شریک ہو گیا۔
’’استاد کواٹر میں چلیں، نیند آرہی ہے۔‘‘
حافظ نے اپنے میلے کپڑوں سے ہاتھ صاف کیے اور وہیں لیٹ گیا۔استاد کے ہلانے جلانے کے باوجود وہ چند منٹ میں ہی اپنے گھٹنوں کو پیٹ سے لگائے چھوٹے چھوٹے خراٹے لینے لگا۔
’’لو یہ تو گیا دیہاڑی لگا کے۔۔۔اب کیا میں تیری جگہ اندھا بن کر بیٹھ جاؤں؟‘‘
استاد نے پاس رکھے گلاس سے منہ لگا کر ایک طرف کو پچکاری ماری۔اپنی پتلون کی جیب سے کالا چشمہ نکال کر پہنا اور جگہ بنا کر اپنی دونوں کہنیوں کے سہارے لیٹ گیا۔اس کے پیچھے آرائشی اشیاء کا ٹھیلا تھا۔اس پر تنے ترپال کا سایہ ان پر بھی تھا۔اتنی بھِیڑ میں ہر چہرہ اس جیسا تھا مگر کوئی اپنا نہ تھا۔ایسے میں اسے اپنا قد چھ فٹ سے آدھا لگنے لگا اور بدن کے کپڑے ڈھیلے ہو کر لٹک گئے۔آوازیں گڈ مڈ ہو کر ایک ٹرین کی صورت پیچھے کو بھاگنے لگیں۔وہ ٹرین کی آواز سننے کے لیے بستی سے باہر مٹی کے ٹیلے پر اکثر منتظر رہتا تھا۔کھڑکیوں سے جھانکتے مسافروں کو ہاتھ ہلا ہلا کر اپنی طرف متوجہ کرتا۔زیادہ مستی چڑھتی تو اپنی قمیض اتار کر ہوا میں لہرانے لگتا۔مہینوں بعد دادا اسی ٹرین کی پٹڑی کو پھلانگتا ہوا اس کی طرف دوڑا آتا۔وہ دادا کی لائی چیزوں کا بھوکا تھا۔اس کی پھیلی بانہیں نظر انداز کرکے اس کی گٹھڑی چھین کر بستی کی طرف بھاگ جاتا۔ماں پکارتی رہ جاتی اور وہ سارا سامان پھیلا کر کھلونے اور ٹافیاں لے کر دوستوں کو دکھانے نکل پڑتا۔رات کو ماں دادا کے سامنے شکایتوں کے دفتر کھول کر بیٹھ جاتی۔اسے ماں کی فکروں اور دادا کی نصیحتوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔
’’دادا تو بھی جب ابا کی طرح مر جائے گا توپھر شہر سے یہ سب چیزیں کون لائے گا؟‘‘ وہ دادا کے پاؤں دابتے ہوئے اپنی ہی رو میں کہتا۔
’’تو خود جائے گا اور کون۔‘‘
’’کام کیا کروں گا وہاں پر؟‘‘
’’جو تری قسمت تجھے دلوائے گی وہ کر لیجیو۔‘‘ دادا کی آنکھوں میں شہر کی روشنیاں بجھنے لگتیں اور وہ کروٹ بدل کر سو جاتا۔
’’اس کو کچھ سمجھا دیتا کہ اپنی زندگی سنوار لے۔۔۔ہر وقت بستی کے آوارہ لڑکوں کے ساتھ کھیل تماشوں میں پڑا رہتا ہے۔‘‘
دادا اسے سمجھانے تھوڑاآتا تھا۔وہ تو کوٹھڑی کا کرایہ اور اس کی من پسند چیزیں دینے آتا تھا۔ایک بار دادا بہت زیادہ سامان لایا جس میں گوٹا کناری والے کپڑے اور ایک چاندی کا ہار بھی تھا۔ماں دلہن کی طرح سجی سنوری اور بستی میں کسی اور کی بہو بن کر رخصت ہو گئی۔اس کا جی چاہا جو آدمی اس کو بیاہ کر لے جارہا ہے اینٹ سے اس کا سر پھوڑ دے۔وہ غصے سے کہیں نکل نہ بھاگے سو دادا نے اسے اپنی بانہوں میں جکڑ رکھا تھا۔اسے اپنی ماں کی آنکھوں میں جدائی کے آنسوؤں سے چاندی کے ہار کی چمک زیادہ دکھائی دی۔دادا نے جب اسے ٹرین پر بٹھا کر شہر لے جانے کا لالچ دیا تب کہیں جا کر وہ ٹھنڈا ہوا۔
شرم کے مارے وہ اپنے دوستوں سے بھی نہیں ملا۔دادا نے کوٹھڑی کا اچھا سامان ماں کو دے دیا اور بیکار سامان بیچ کر اس کے پیسے خود رکھ لیے۔اسکول کے ماسڑ صاحب سے پندرہ دن کی چھٹی لی اور ٹرین میں بیٹھنے سے پہلے اسے کھانے کی چیزیں بھی دلا دیں۔
’’کتنا بڑا ہو گیا ہے تو اور ابھی تک پانچویں جماعت نہیں پاس کی۔‘‘ اس کا سارا دھیان کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر تھا-
’’مجھے نہیں پڑھنا ۔۔۔شہر میں کام کروں گا اور اپنی پسند کی چیزیں لوں گا۔‘‘ وہ ٹرین چلنے سے پہلے ہی سیٹ پر بیٹھ کر ہلنے لگا۔
’’چھک۔۔۔چھک ۔۔۔چھک۔۔۔‘‘ ، اور جب ٹرین چلی تو اپنے ہاتھ میں پکڑی قلفی کے تنکے کو کھڑکی سے باہر پھینکتے ہوئے جھک کر دیکھنے لگا۔تنکے کی اوقات کیا تھی۔اسے نظر بھی نہیں آیا کہ کدھر گیا اور کہاں گرا۔
وہ بستی کو خود سے دور ہوتا اور شہر کے بارے میں سوچتا کھڑکی سے ہی اپنا سر ٹکا کر سو گیا۔آوازوں کے جھکڑ میں ایک نسوانی چیخ پر یکدم وہ ڈر کر اٹھ بیٹھا۔دادا کے قریب لوگوں کا جمگھٹا اور ٹرین کی کھڑکی سے باہر اندھیرے میں بھاگتی چیزیں اسے تنہا کر گئیں تھیں۔دادا کے ضروری سامان والی گٹھڑی اس کے پاس سیٹ کے نیچے رکھی تھی۔آگے بڑھ کر اس نے دادا کے سوئے ہوئے چہرے کو دیکھا اور آخری بار اس کے سینے سے لگتے ہوئے اس کی جیب ٹٹولی۔لوگ کہہ رہے تھے شہر قریب ہے اور زنجیر کھینچنے کا فائدہ نہیں۔وہ آہستہ آہستہ سرک کر دادا سے دور اور دروازے کے قریب ہوتا گیا۔ٹرین کے رکنے پر اترنے والا وہ پہلا مسافر تھا۔
ذرا سی دیر کی جھپکی اسے میلوں دور لے گئی تھی اور درد کی اِک سسکاری اسے واپس عرس میں لے آئی۔کسی کے جوتے کی ایڑی نے اس کے پاؤں کو کچلا تھا۔
’’دھیان نہیں ہوتا راستے پر۔‘‘ وہ اپنا چشمہ اتار کر سامنے کھڑی لڑکی پر بولا۔
’’یہ راستہ سونے کے لیے نہیں گزرنے کے لیے ہے۔‘‘ اس لڑکی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا اوراسے پھلانگ کر ٹھیلے والے سے خریداری کرنے لگی۔
’’یہی راستے ہمارے جیسوں کی لیٹرینیں بھی ہیں اور بستر بھی۔‘‘ بڑبڑاتے ہوئے اس نے اپنے بازو اوپر اٹھا کر انگڑائی اور جمائی دونوں ایک ساتھ لیں۔
’’اُٹھ جا نواب کی اولاد۔‘‘ اس نے ایک لات سوئے ہوئے حافظ کو لگائی۔سورج پار اترنے کو تھا۔
نظریں بار بار اسی لڑکی کے چہرے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔وہ پلاسٹک کے چھوٹے سے گملے میں ہرے پتوں کو چھو کر یوں محسوس کر رہی تھی جیسے اس کے لیے بہت مقدس ہوں۔یہ دیکھ کر ایک بھولا ہوا خیال اس کے دل سے ہو کر گزرا پھر اس نے سوئے ہوئے حافظ کو اپنے کندھے پر ڈال کر زمین سے کپڑا بھی کھینچ لیا جیسے کبھی راستے میں پڑا ہوا اپنا دل اٹھایا تھا۔
آج رات اس نے رکنا تھا لیکن طبیعت پر کسلمندی ایسی چھائی تھی کہ ٹھکانے پر پہنچ کر دم لینے کا ارادہ بن گیا۔اس کی مخصوص سیٹی کی آواز سن کر تھوڑی دیر تک شانی اور جمالا بھی ساتھ مل گئے۔
’’استاد آج تو حافظ نے قوالی پر دھمال ڈالنی تھی۔‘‘
’’دیکھتا نہیں مرا پڑا ہے۔‘‘ استاد نے تیز تیز چلتے ہوئے شانی کو غصے سے جواب دیا۔
تعویذ کے داخلی راستوں پر پولیس اپنی حفاظتی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے لوگوں کی شکایات بھی درج کر رہی تھی۔اس نے ایک پولیس والے کو ہاتھ اٹھا کر سلام کیا۔اپنی جیب سے کچھ روپے نکال کر تھمائے اور زبردستی کی مسکراہٹ چہرے پر سجا کر واپس ہو لیا۔کوئی اور زمانہ ہوتا تو ان کے لیے اس کی زبان پر گالیاں ہوتیں مگر ایسے ہی ایک وردی والے نے اسے کبھی رچنا کا ہاتھ بھی تھمایا تھا۔وہ اسے اپنے دل کی مراد جیسی لگتی تھی مگر کبھی پوری نہیں ہوئی۔آج مدت بعد رچنا کی یاد اس کا ماس ادھیڑ رہی تھی۔کھال کے نیچے کی ہڈیوں کو اس کا دل کرتا تھا چورا چورا کر دے۔سفید ساڑھی میں سہمی ہوئی اپنی جوانی لپیٹے رچنا اس کے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ہلکا سا ابھرا ہوا پیٹ،مٹا مٹا سا مانگ کا سیندور اور بلاوز کے نیچے منگل سوتر اڑسا ہوا ۔اس کا شوہر اور سسر سیلاب میں گائے اور اس کے دو بچوں کو بچاتے ہوئے ڈوب گئے تھے۔رچنا کی شادی کو ابھی صرف چار ماہ ہوئے تھے اور سن بھی ابھی سولہواں لگا تھا۔خاندان کے مردوں سے عزت بچا کر بھاگی تو ایک وردی والے نے سال بھر کے ایک اڈے کی کمائی کے عوض اسے سونپ دی۔وہ اس کے لیے استاد نہیں صرف منظور تھا۔وہ لوگوں کے درمیان اپنے لیے راستہ بناتا ہوا اپنے نام پر ہنسنے لگا۔رچنا نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔’’بے وفا عورت‘‘ کہہ کر اس نے اس کے خیال سے منہ موڑنا چاہا۔اس کے ساتھ چلتی رچنا اس کی آنکھوں کے بھیگے گوشے دیکھ کر پھر غائب ہو گئی۔اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کی پرچھائیں اپنی مٹھی میں قید کرنا چاہی مگر پھر اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔اس نے تو کبھی اس کے گوشت پوست کے وجود کو ایک چھت تلے نہیں چھوا تھا۔منگل سوتر رچنا کے لیے دھرم مگر منظور کے لیے ماں کے چاندی کے ہار کی طرح ایک گہنا تھا۔
’’یہ عورت ذات گہنوں کی اتنی حریص کیوں ہوتی ہے؟‘‘ اس نے اپنا سَر جھٹکا۔جب بچہ جننے کا وقت قریب آیا تو اپنی برداری کے پاس واپس چلی گئی یہ کہہ کر کہ ’’اشوک کا بچہ کمار ہو گا حافظ نہیں۔‘‘ وہ بھی ماں کے پاس واپس جانا چاہتا تھا مگر جب اسے خبر ملی کہ اب وہ اس کے چار سوتیلے بہن بھائیوں کی ماں ہے کبھی ٹکٹ گھر جانے کا سوچا بھی نہیں۔ٹرین کی آواز سیسہ بن کر اس کے کانوں کو پگھلاتی تھی۔
حافظ کے جاگنے پر اسے اس پل ایسا محسوس ہوا جیسے بیتا ہوا کل ٹرین بن کر اس کے اوپر سے گزر گیا ہو۔جمالا اور شانی گنے کی رو پینے کے لیے اس سے آگے نکل گئے تھے۔اس نے حافظ کو اپنے کندھے سے اتار دیا۔حافظ نیند میں اس کے ساتھ چلتے ہوئے ہوا میں اپنے ہاتھ چلانے لگا۔
’’استاد مجھے بھی ڈاکڑ کے پاس لے جا کر مسلمان بنا دے۔۔۔شانی اور جمالا نہاتے ہوئے میرا مذاق اڑاتے ہیں۔‘‘
اس نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے اس کی ٹانگوں سے لپٹ کر لاڈ سے کہا تو وہ اس کے لیے استاد سے منظور بن گیا جیسے یہ اس کا اور رچنا کا کمار ہو۔اس نے اسے گود میں اٹھا کر ہوا میں اچھال دیا اور دوبارہ پکڑنے کے لیے اپنے بازو پھیلا دیے!!!