”میرا ببر شیر!“ میں نے لاڈ سے سات سالہ بیٹے کو پکارا تو جواب میں بیوی کی کاٹ دار آواز سنائی دی۔
”کاہے کا ببر شیر؟ ۔۔کل ہمسائے کے لڑکے نے معمولی بات پر دو چانٹے رسید کر دیے اور آپ کا صاحبزادہ ٹسوے بہاتا ہوا گھر آ گیا۔۔ـ لگاتا دو گھونسے اس کے، عقل ٹھکانے آتی اس کی بھی۔۔ ـ بزدل کہیں کا۔۔ بالکل باپ پر گیا ہے۔ ـ“
آخری الفاظ تو میرے سینے میں تیر کی طرح پیوست ہو گئےـ۔ سچ ہے کہ میں لڑائی جھگڑے سے دُور رہتا ہوں اور محلے میں شرافت کا لیبل بھی چسپاں ہے ـ لیکن شریکِ حیات ایسے طعنے دینا شروع کردے تو دل میں اُبال تو اٹھتا ہے۔ ـ میں نے سختی سے ہونٹ بھینچ کر گالیوں کا گلا گھونٹا کہ بات کو طول دینے کا کوئی فائدہ نہیں، خوامخواہ بات کا بتنگڑ بن کر جھگڑے کی صورت اختیار کرے گا اور سارا دن اذیت میں گزرے گا ۔ـ بیوی زبان کی ذرا تیز تھی لیکن دل کی اچھی تھی۔ ـ ہمارے محلے میں زیادہ تر مزدورطبقہ آباد تھا ـ ۔مردحضرات تو صبح سویرے کام پر نکل جاتے، پیچھےخواتین کی تُو تکار اور لڑائی جھگڑا روز کا معمول تھا ـ ۔خاص طور پر بچوں کے جھگڑے بڑوں تک پہنچتے اور خوب حسب نسب کھنگالے جاتے، ـ وہ ہاہاکار مچتی کہ الامان والحفیظ۔ ـ مائیں اپنے بچوں کے حق میں زمین آسمان ایک کر دیتیں اور دوسروں کے بچے تو جیسے ان کی نظر میں انسان ہی نہ تھے۔ ـ شام کو لڑائی کا دوسرا مرحلہ شروع ہوتا جب مرد تھکے ہارے واپس آتے اور بیگمات شکایات کا پنڈورا باکس کھول کر بیٹھ جاتیں، ـ ایسی ایسی شکایات کہ جن کا سرے سے وجود ہی نہ ہوتا۔ ـ اکثر شوہر حضرات جذباتی ہو کر طیش میں آجاتے اور فساد دوبارہ شروع ہو جاتا ـ ۔چند سمجھ دار شوہر پیار محبت اور ٹال مٹول سے کام لیتے اور مزید لڑائی سے گریز کرتے۔ ـ یہ الگ بات ہے کہ ان پر بیویاں خوب طنز کے تیر چلاتیں۔ ـ میں بھی ان شوہروں میں شامل ہوں جو حتّی المقدور لڑائی جھگڑے سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ـ بیوی کے ایسے شکوے کا اکثر جواب دیتا کہ ”بھاگوان! بچے ہیں، لڑتے بھی ہیں ـ ،کچھ دیر کی ناراضی کے بعد پھر مل کر کھیلیں گے ـ ۔۔ان کی لڑائی کی وجہ سے بڑوں کے درمیان دشمنی اور کینہ نہیں پیدا ہونا چاہیے۔ ـ“ لیکن آج بزدلی کا طعنہ جیسے دماغ میں گھس کر بیٹھ گیا تھا، نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھاـ ۔تازہ دم ہونے کے لیےباہر نکلا تو محسوس ہوا جیسے ہر شخص مجھے گھور رہا ہے اور بزدلی کے طعنے دے رہا ہے۔ـ رات خواب میں بھی عجیب عجیب شکلیں نظر آتی رہیں جو چہروں پر طنزیہ مسکراہٹیں سجائے مجھ پر آوازے کس رہی تھیں۔۔”بزدل کہیں کا، بزدل کہیں کا!“
دوسرے دن کام سے واپس آیا تو بیٹا لاڈ سے بولا:”ابو! میرا عید کا سوٹ؟“ بیٹے کا سوال دل پر گھونسے کی طرح لگا ـ”بیٹا! چند دن اور، پھر نیا سوٹ لادوں گا۔ ـ“
”ابو! آپ ہر بار ایسے ہی کہتے ہیں ـ پچھلی عید پر بھی میں نے پرانا سوٹ پہنا تھا۔ـ“ بیٹے نے منہ بسورتے ہوئے جواب دیا۔ اس کا حافظہ بلا کا تھا۔
ـ ” ـاچھا بیٹا! کل ضرور لا دوں گا۔“ میرا جواب سن کر اس کے چہرے پر امید کی کرن چمکی ـ ۔بیٹے کی زبان تر ہوچکی تھی اور وہ کبھی کبھار فرمائشیں کر دیتا تھا ـ۔ ابھی چند دن پہلے اس نے آم کھانے کی فرمائش کی تھی اور اسے ٹالنے میں مجھے کیسی اذیت کا سامنا کرنا پڑا تھا ـ ،کیسے کیسے بہانے گھڑے تھے کہ ابھی آم کھٹے ہیں، گلا خراب ہو جاتا ہے وغیرہ ـ ۔چھوٹی گڑیا چھ ماہ کی تھی، فرمائشوں والی عمر تک نہیں پہنچی تھی ـ سووہ مسکراہٹوں اور لاڈ بھری آوازوں سے خوش ہوجاتی تھی۔ ـاسے اٹھا کر باہر کھلی ہوا میں لے جاکر بیٹھ جاتا تو سڑک سے گزرتی ٹریفک،سائیکل، موٹر سائیکل، رکشا اور موٹر کاریں دیکھ کر اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھری رہتی ـ ۔دن بھر کا تھکا ہارا باپ گھر لوٹتا ہے تو بچوں کو مسکراتا دیکھ کر ساری تھکن بھول جاتا ہےـ لیکن جب ماں کا دودھ خشک ہو جائے تو غریب باپ کا خون خشک ہو جاتا ہے۔ ـ دودھ کا اضافی خرچ رہی سہی کسر نکال دیتا ہے ـ اور کم تنخواہ میں مہینہ گویا سال بن جاتا ہے۔ ـ ماہِ رمضان، مہنگائی اور پھر عید، غریب بندہ جائے تو جائے کہاں اورکس کونے میں منہ چھپائے۔ عید سر پر تھی لیکن عید کی تیاری کا نام و نشاں نہیں تھا۔ ـ ہماری تو خیر تھی لیکن بچے کی فرمائش بجا تھی اور گھر کے اخراجات سے پیسے بچانا ایسے ہی تھا جیسے دال چڑھا کر نہاری کی امید رکھنا۔ ـ اگلا دن اسی پریشانی میں گزرا کہ بیٹے کے سوٹ کے لیے پیسوں کا انتظام کہاں سے ہو یا کسی سے ادھار لیا جائے۔
آہ! یہ ادھار بھی بھیک مانگنے جیسا ہے، ـ مانگتے ہوئے محسوس ہوتا ہے جیسے بندے کا ستر کھل گیا ہو۔ـ برہنگی کے احساس نے میری آنکھیں نم کر دیں۔ ـ آخر ناکامی منہ پر سجائے گھر کی طرف روانہ ہوا ـ ۔آج سیوریج کی کھلی نالیاں مزید بدبودار محسوس ہو رہی تھیں ـ ۔گھروں کے کھلے دروازوں میں میلے چیکٹ پردے جھول رہے تھے جن کی اوٹ سے کبھی کبھار نوجوان لڑکیوں کے چہرے ایسے نمودار ہوتے جیسے بادل کی اوٹ سے میلا چاند۔ ـ کچھ خواتین گلی میں سایہ دار جگہ پر چارپائی ڈالے خوش گپیوں میں مصروف تھیں ـ ۔میلے کچیلے بچے مکھیوں کی بھنبھناہٹ میں ارد گرد سے بے نیاز کھیل کود میں مصروف تھے ـ ،کسی نے صرف جانگیہ پہنا ہوا تھا اور کوئی قمیص پہن کر جانگیے کی قید سے آزاد تھا ـ لیکن بچے، بچے ہوتے ہیں،ان کے میلے چہروں پر اجلی خوشی بکھری ہوئی تھی۔ ـ ایک بچہ دروازے میں کھڑا نالی میں دھار لگا کر مثانہ خالی کر رہا تھا ـ ،کچھ گھروں کی دیواروں پر گوبر کے اپلے سکھانے کے لیے تھوپے ہوئے تھے ـ ۔میرا جی چاہا یہیں سے لوٹ جاؤں، کہیں دور بھاگ جاؤں ـ لیکن سوچنے اور کرنے میں بہت فرق ہوتا ہےـ ۔بوجھل دل کے ساتھ گھر داخل ہوا تو بیٹے کی امید بھری نظروں نے مجھے زمیں میں گاڑ دیا ۔ـ اس کے سوال سے پہلے ہی میں بول پڑا ۔۔”بیٹامیں گیا تھا دکان پر۔۔لیکن کوئی سوٹ پسند نہیں آیا۔۔ کل کسی اور دکان سے اچھا سا سوٹ لا کر دوں گا۔ ـ“ ـ پھر خود کو دل ہی دل میں کوسا کہ جھوٹ بول کر مفت کا گناہ کمایا۔ ـ
اگلے دن دل پر پتھر رکھ کر فیکٹری میں ساتھی مزدور سے کچھ پیسے ادھار مانگے۔ ـ ادھار لے کر یوں محسوس ہوا جیسے چوری کی ہو۔ ـ جب تک ادھار نہ چکا دوں، ایک عجیب بے چینی اور ندامت کا شکار رہوں گا ـ لیکن یہ خوشی تھی کہ بیٹے کا سوٹ تو آئے گا ـ ۔گھر پہنچا تو بیوی نے راشن ختم ہونے کی خبر سنادی اور میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا ـ ۔خیر مرتا کیا نہ کرتا، راشن لایا کیونکہ پیٹ کی آگ بجھانا بہت ضروری ہے۔ ـ اب پیسے اتنے کم بچے کہ سوٹ کا کپڑا خریدنا مشکل نظر آ رہا تھا ـ ۔کئی دکانیں چھان ماریں لیکن کپڑا پورا نہ ملا ـ ۔عید میں دو دن تھے چنانچہ جتنا ملا، لے کر گھر کو روانہ ہوا کہ بیوی کھینچ تان کر سی ہی دے گی۔ ـ بیٹا کھِل اٹھا کہ کپڑا آ گیاـ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کپڑے سے صرف قمیض سلی اور شلوار رہ گئی ـ آخر بیوی نے اپنا پرانا دوپٹا کاٹا اور بیٹے کی شلوار سی ڈالی ـ عید آئی۔ نہا دھو کر تیار ہوئے تو بیٹے نے غصے سے چلانا شروع کر دیا کہ ـ اصل میں شلوار کا رنگ قمیض جیسا نہ تھا۔ ـ بڑی مشکل سے سمجھایا کہ قمیض تو نئی ہے اور اب تو لوگ سفید شلوار کے ساتھ دوسرے رنگ کے کرتے بھی پہنتے ہیں ـ ۔”لیکن یہ شلوار سفید تو نہیں ہے! ـ“بیٹے نے منہ بسوراـ ۔مرا ہوا سفید رنگ وقت کی تہوں میں دب کر مزید مر چکا تھا اور زردی مائل نظر آتا تھا ـ سو حیلے بہانوں سے بیٹے کو منایا۔ ـ وہ چپ تو ہو گیا لیکن صاف نظر آ رہا تھا کہ اس کے اندر غصے کی آگ بھڑک رہی ہے۔ ـ اس کا بجھا ہوا چہرہ دیکھ کر میرا دل کٹنے لگا۔ـ عید گاہ پہنچے تو بچوں کے رنگ برنگے خوبصورت لباس دیکھ کر بیٹے کے چہرے پر مایوسی کے سائے لہرانے لگے۔ ـ نماز کے بعد گھر کی طرف روانہ ہوئے تو گھر کے قریب محلے کے شرارتی لڑکے ببُّو نے بیٹے کے لباس پر طنزیہ جملہ کس دیا :”لو جی! عید پر بھی شلوار اور قمیص اور ۔۔۔ـ“ میں نے اس کی کھنچائی کے لیے کچھ کہنا چاہا تو الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔ ـ میرا بیٹا ہاتھ چھڑا کر غصیلے انداز میں ببّو کی طرف بڑھا اور ایک گھونسا اس کے منہ پر رسید کر دیا ـ ۔میں بیٹےکی حرکت پر ہکا بکا رہ گیا۔ ـ ببو نے جوابی وار کیا اور اس کا گھونسا بیٹے کے کندھے پر لگا ـ ۔میں نےجلدی سے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا کہ اب تو بیٹا رونا شروع کر دے گا ـ لیکن میری آنکھیں پھٹی رہ گئیں جب تکلیف کی پروا کیے بغیر وہ حلق کے بل چلایا اور وحشت کے عالم میں ببو کے گریبان میں ہاتھ ڈال کر اس کا نیا سوٹ پھاڑ ڈالا۔ ـ ببو بیچارا رونی صورت بنائے کھڑا تھا۔ ـ اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کل کے دبّو لڑکے نے اسے دھول کیسے چٹا دی۔ غصے سے میرے بیٹے کا چہرہ لال بھبھوکا ہو رہا تھا۔ـ اس سے پہلے کہ وہ مزید ہلہ بولتامیں جیسے ہوش میں آیا اور آگے بڑھ کر بیٹے کو بازوؤں میں لیا اور تیزی سے کھلے دروازے سے گھر میں داخل ہوا ۔ـ بیوی دیکھ کر چھوٹتے ہی بولی:”کیا طوفان آ گیا جو اندھا دھند گھستے چلے آ رہے ہو؟“
میں نے گھور کر بیوی کو دیکھا اور بیٹے کو ہوا میں بلند کر کے بے ساختہ چلایا: ”میراببر شیرررر۔۔۔!“