fbpx
افسانہ

اِک گھر ایسابنانا چاہیے / محمود ظفر اقبال ہاشمی

 

’سر آپ اس ملک کے مایہ ناز رئیل اسٹیٹ ٹائیکون اور بلڈر ہیں ۔۔۔۔۔آپ نے اس ملک میں شہر کے شہرنئے سرے سے بسائے ہیں۔۔۔۔۔مگر سننے میں آیا ہے کہ آپ ایک دو کمروں کے چھوٹے اور سادہ سے گھر میں رہتے ہیں۔۔۔۔۔اس کے پیچھے کوئی فلاسفی ہے ،سادہ مزاجی یا پھر آپ کے ماضی سے جُڑی کوئی کہانی ؟‘
ٹی وی اینکرنے انٹرویو کے دوران ایسا سوال کر ڈالا کہ ایک لمحے کے لئے مجھے محسوس ہوا جیسے کسی ماہر آرتھوپیڈک نے ہڈی میں چھپے کسی ہیئرلائن فریکچر کو ایکس رے پر ایک نظر ڈالتے ہی باآسانی دریافت کر لیا ہو!
میرے لئے یہ محض ایک سوال نہیں تھا۔ اس کا جواب دینے کا مطلب یہ تھا کہ مَیں اور میرا ماضی ایک ایسے پرانے سویٹر میں ڈھل جاتے جس کی اُون کا چھوٹا ساسرا کسی کے ہاتھ آجائے تو وہ با آسانی اُدھڑتا چلا جاتا ہے!
مَیں اسے کیسے بتاتا کہ واقعی اس کے پیچھے فلاسفی بھی تھی، سادگی بھی اور میرے تلخ ماضی سے جُڑی ایک کہانی بھی۔اس ایک سوال نے میری زندگی کو فاسٹ ریوایئنڈ کر کے مجھے برسوں پیچھے پہنچا دیااورمجھے وہ چھوٹا سا دو کمروں کا سرکاری کواٹر یاددلا دیا جہاں ہم آٹھ بہن بھائی اپنے والدین اور دادی کے ہمراہ رہا کرتے تھے۔اس گھر کے کمرے اتنے چھوٹے ہوا کرتے تھے کہ اِدھر اندر داخل ہوئے اور اُدھر آگے دیوار۔۔۔۔۔بس کمرہ ختم! ایک کمرے میں امّی کے جہیز کی بڑی سی پیٹی نے پہلے ہی آدھے کمرے کو گھیررکھا تھا کہ بمشکل ایک چارپائی ہی اس میں سما پاتی تھی اور رہی سہی کسر جائے نماز کے طور پر استعمال ہونے والا تخت پوش پوری کر ڈالتا تھا۔ دوسرے کمرے کی حالت تو اس سے بھی پتلی ہوا کرتی تھی۔ ایک تو وہ ویسے ہی چھوٹا تھااور اوپر سے پرانے زمانے کا دیو ہیکل پلنگ۔واحد کوناجو خالی بچا تھا وہاں ایک بوسیدہ شیلف سہمے سہمے انداز میں اپنے اندر پرانا ٹی وی،ڈھیروں کتابیں اور گھریلو استعمال کی متفرق چیزوں اپنے دامن میں سمیٹے دیوار سے لگا یوں دکھائی دیا کرتا تھا جیسے گھر والوں نے رحم کھا کر اسے پناہ دے رکھی ہو۔اسی کمرے میں بیٹھ کر ہر روز رات کو ہم آٹھ بہن بھائی، ابا ،امی اور دادی سمیت آٹھ بجے والا ڈرامہ دیکھا کرتے تھے تو عالم کچھ یوں ہوتا تھا گویا سب بغل گیرہو کر ٹی وی دیکھ رہے ہوں۔اس گھر کے برآمدے کا ایک تہائی حصہ ہم نے زبردستی ایک سٹور میں بدل رکھا تھا۔جب سخت سردیوں کا قہر آسمان سے زمین پراُترتاتو یہ برآمدہ کچن کا روپ دھار لیا کرتا تھا اورہم گیس کا چولہا جلائے، بھاری بھر کم غلاف زدہ چِق گرا کر اسی برآمدے میں سردی سے پناہ لیا کرتے تھے۔اس گھر میں جو واحد کھلی جگہ تھی وہ اس کا آنگن تھا جو کمروں کی کل جگہ سے تقریباً دو تہائی زیادہ تھا۔ جگہ کے نا معقول استعمال کے باوجود ہمیں وہ آنگن پوری کائنات کی طرح لگا کرتا تھا جہاں گرمیوں میں اس کی شمالی دیوار کے سائے میں کھجور کی سُوکھی چھال سے بُنی چٹائی پر بیٹھ کرہم ہر روزاپنی امی کے ارد گرد بیٹھ کرناشتہ کیا کرتے،رات کا کھانا کھایا کرتے اوررمضان المبارک میں سحری و افطاری کیا کرتے تھے۔اسی آنگن میں ہم سب بہن بھائی مل کرصرف پٹھوگرم، چھٹاپو،کوکلا چھپاکی ہی نہیں بلکہ ہاکی، فٹ بال اور کرکٹ بھی با آسانی کھیل لیا کرتے تھے۔اسی آنگن میں بیٹھ کر ہم مل کرکبھی گنے چوسا کرتے تو کبھی بلا حساب آم، کینو، امرود ، خربوزے اور انارکھایا کرتے تھے۔اورکچھ میسر نہ ہوتا تو گھنٹوں خوش گپیوں اور کالے نمک کے ساتھ مولیوں،ککڑیوں اور گاجروں کی پر تکلف دعوتِ شیراز اُڑایا کرتے تھے۔گرمیوں کی سہ پہروں میں جب ہم اس پر پانی کا چھڑکاؤ کرتے توگویا اس کی پرانی سرخ اینٹیں کھِل کھِل اٹھتیں،گویا ان کا جوبن لَوٹ آتااوران کی ہر ایک درز سے نوجوانی کی انگڑائیاں اور عہدِ شباب کی مخصوص خوشبو پُھوٹنے لگتی۔اس آنگن کا دامن اتنا بڑا تھا کہ گرمیوں کی راتوں میں ہم گیارہ باسیوں کی الگ الگ چارپائیاں باآسانی اس میں سما جایا کرتی تھیں۔سرِ شام بچھنے والے بستر رات تک اتنے ٹھنڈے ہوجایا کرتے تھے کہ رات سونے کے لئے تھکے ہوئے بدن ان پر پڑتے ہی نیند سب کی پلکوں پر ہلکی ہلکی تھپکیاں دینے لگتی۔سرکاری کالونی میں سو سے زیادہ گھر تھے۔ جس طرح اس کالونی کے سب گھروں کا نقشہ ایک سا تھا بالکل اسی طرح اس کالونی میں رہنے والے سب لوگوں کی خوشیاں،لڑائیاں،ترجیحات،غم،شکایتیں، مسائل، باتیں ،چہرے اور خواب بھی تقریباًایک سے تھے۔آج مَیں مڑ کر دیکھتا ہوں تومجھے اصل طلسم ان گھروں کے نقشے میں محسوس ہوتا ہے جہاں نہ کوئی ایک پل کے لئے ایک دوسرے سے دُور ہوتا تھا اور نہ ہی جدا! چھوٹے گھر تھے مگر ان میں خوشیاں بڑی تھیں!

 

اس گھر میں ہم نے زندگی کے آسودہ ترین انیس برس گذارے۔ گھر کیا تھا ایک پناہ گاہ تھی جو ہمارے مالی مسائل،مشکلات اور سفید پوشی کی یوں حفاظت کرتا جیسے برفیلے موسموں میں گرم دہکا ہواآتشدان ٹھٹھرے جسموں کی پالے سے حفاظت کرتا ہے۔ اس گھر میں کوئی ایسا کونا کھدرا نہیں تھا جہاں کوئی اپنا راز چھپا سکتا تھا سو جلد یا بدیر سب کے راز یا تو افشاہو جاتے یا پھر بانٹ لئے جاتے۔اسی طرح کسی کی کوئی بھی مشکل یا الجھن زیادہ دیر تک اس کی ذاتی ملکیت نہیں رہ پاتی تھی۔تعلیمی میدان میں ہم سب بہن بھائیوں کے اوجِ کمال کی ایک بنیادی وجہ بھی ہمارا گھر ہی تھا۔ بچپن سے لے کر لڑکپن تک اور لڑکپن سے لے کرنوجوانی تک ہم سب تقریباً پاس پاس بیٹھ کر پڑھا کرتے۔ ایسے میں ابا اور دادی کی ہلا شیری کے باعث صحت مندانہ مقابلے کی فضا قائم رہتی اوران کے اعلان کردہ چھوٹے چھوٹے انعام جیتنے کے لئے ہم سر دھڑ کی بازی لگا دیاکرتے تھے۔اسی گھر میں ہم نے اپنی امی کے بالوں میں پہلی بارچاندی اترتے دیکھی،اسی گھر میں ہم سب نے اپنی بڑی بہن کو شادی کے بعد رخصت کرکے ایک دوسرے کے آنسو پونچھے اوراسی گھر میں ہم سب نے ہمیں جوڑ کر رکھنے والی اپنی پیاری دادی کا جنازہ بھی دیکھا!

پھر ایک دن ایسا آیا کہ ابا جی ریٹائر ہو گئے !
آنسوؤں سسکیوں کے ساتھ جب ہم نے ایک مضمحل سہ پہر کو اس چھوٹے گھر کو چھوڑا تو تب ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ چھوٹا سا گھر کتنا بڑا تھا اور اس چھوٹے سے گھر نے کیا کچھ سمیٹ رکھا تھا!
کرائے کا نیا گھر اتنا بڑا تھاکہ شروع می ںسب کو جتناعجیب لگتا اتنا ہی بُرا بھی!
خواہ مخواہ پھیلے ہوئے کمرے…کوئی بہت اِدھرتو کوئی بہت اُدھر!
ہر کسی کو الگ الگ کمرہ مل گیا جس میں ہم سب بار بار گم ہو جاتے اور بار بار ایک دوسرے کو ڈھونڈنا پڑتا۔ایسے میں ہم اپنے چھوٹے گھر کو بہت یاد کیا کرتے اور اکثر سب مل کر تانگے پر اس گھر کو صرف ایک نظرباہر سے دیکھنے ہی چلے جایا کرتے۔جب کچھ وقت اس نئے بڑے گھر میں گذرگیاتو وہی ہوا جو اکثر انسانوں کی یاداشت کے حوالے سے مشہور ہے۔ہمیں اس نئے بڑے گھر کی عادت ہونے لگی اور اس میں کئی فائدے نظر آنے لگے۔مَیں شائد ماضی میں رہنے والا شخص تھا یا پھر قدامت و قناعت پسندکہ سوائے میرے آہستہ آہستہ سب اپنے چھوٹے گھر کو بھولتے چلے گئے۔بڑے بھائی جب کچھ عرصے بعد ڈاکٹر بن کرشہر کے ایک نواحی قصبے میں تعینات ہو گئے تو سب سے واضح تبدیلیاں مَیں نے ان میں محسوس کیں۔ وہ شام ڈھلے واپس آتے اور اپنے الگ کمرے میں گم ہو جاتے۔ان سے بات کرنا تو درکنار ان کی شکل کسی فلم کے مہمان اداکار کی مانندلگنے لگی۔ پرانے گھر میں وہ باقاعدگی کے ساتھ ہم سب کے ساتھ مل کر کیرم کھیلا کرتے تھے، ٹی وی پر ڈرامے دیکھا کرتے تھے اور خوب گپیں لگا کرتی تھیں مگر اب ان سے خال خال ہی ملاقات ہوتی۔چھٹی والے دن بھی ان کا زیادہ تر وقت اپنے کمرے میں ہی گزرنے لگا۔ نجانے صرف مجھے کیوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان کی باتوں میں اب خود غرضی جھلکنے لگی تھی ۔ان سے چھوٹی بہن لیکچررشپ ملنے کے بعد یکا یک اتنی مصروف ہو گئی کہ اسے بھی اب پوری کائنات میں اپنا کمرہ ہی واحد پناہ گاہ محسوس ہوتا تھا۔ چھوٹی تینوں بہنیں اور منجھلا بھائی بھی اپنے اپنے کمرے میں گھسے رہتے اور میرے والدین ان کو آوازیں دے دے کر تھک جاتے۔گھر میں سب سے چھوٹا ہونے کی وجہ سے اصولاً میری یاداشت سب سے پہلے کمزور ہونا چاہیئے تھی مگر ایسا نہ ہو سکا۔آپس کی گفتگو اب قصۂ پارینہ بنتی چلی جا رہی تھی ۔ایسے میں  اکثر گھر میں چھائی گہری خاموشی سے گھبرا کر مَیں اپنی پرانی کالونی کی طرف نکل جاتا، اپنے پرانے دوستوں سے ملتا اور اپنے پرانے چھوٹے گھر کے سامنے اپنی بائیسکل پر کھڑا کتنی ہی دیر حسرت بھری نگاہوں سے اسے دیکھتا رہتا!
چھوٹے گھر سے بچھڑے ہوئے جب دو برس اور بیت گئے تووالدین نے بڑے بھائی کو شادی کے متعلق اشارے دینے شروع کئے۔بڑے بھائی نے حامی تو بھری مگرجب بڑی بے رحمی کے ساتھ ساتھ والدین کے تجویز کنندہ رشتے ایک ایک کر کے ٹھکرانے شروع کر دئیے تو والدین کی تیوری پر پہلی بار مَیں نے کچھ سنجیدہ اور کچھ رنجیدہ بل دیکھے۔بڑے بھائی کے خیال میں اب ان کا ایک سوشل سٹیٹس بن چکاتھااور رشتے قبول کرتے ہوئے اس کا خیال رکھنا لڑکی کی موزونیت سے کہیں زیادہ ضروری تھا۔ ابھی ان کی شادی کا معاملہ کٹھائی میں پڑا ہوا تھا کہ منجھلے بھائی نے اپنی جاب ہوتے ہی اپنی شادی کا مقدمہ پیش کر دیا۔اسے ایک لڑکی پسند آ گئی تھی اور انہیں بڑے بھائی اور اپنے سے بڑی دو جوان بہنوں سے زیادہ اپنی شادی کی فکر نئے جوتے کی طرح ستانے لگی تھی۔اس معاملے پر ہمارے گھر میں سخت ناچاقی ہوئی۔ابا اور امی نے منجھلے بھائی کو بہتیرا لتاڑا اور اپنی باری کا انتظار کرنے کا حکم صادر کر دیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ منجھلے بھائی نے والدین کی پرواہ کئے بغیر خود ہی شادی کر لی اور گھر داماد بن کراس نے بلا آخراپنا گھر بسا لیا۔اس پرناراض ہو کروالدین نے منجھلے بھائی سے قطع تعلق کر لیا اور چھ ماہ بعدبڑے بھائی نے بھی اپنے لئے ایک ایسی شریک سفر کا انتخاب کر لیا جو خود بھی ایک ڈاکٹر تھی۔ وہ بیاہ کر گھر آئی تو اس نے بڑے بھائی کو لے کر اپنے بیڈ روم کی کنڈی اندر سے اتنی مضبوطی کے ساتھ بند کی کہ باوجود مسلسل دستکوں کے کسی سے کتنا ہی عرصہ کھل ہی نہ سکی۔نتیجہ یہ نکلا کہ ایک سال کے تکلیف دہ گھریلو جھگڑوں کے بعد وہ اور بڑے بھائی ٹرانسفر کا بہانہ کر کے ایسے گھر سے نکلے کہ اس کے بعد کم از کم مَیں نے ان کی آنکھوں میں والدین اور بہن بھائیوں کے لئے کبھی محبت نہیں دیکھی۔اگلے چند برسوں میں جب ایک ایک کر کے چاروں بہنوں کی شادیاں ہو گئیں تو مَیں اور والدین اس بڑے گھر میں اکیلے رہ گئے حالانکہ مجھے یقین ہے کہ ہم اس بڑے گھر میں ساتھ رہنے کے باوجود پہلے دن سے اکیلے تھے!
ایک مضبوط گانٹھ میں بندھے کنبے کو چند برسوں میں اتنی آسانی کے ساتھ یوں ایک دوسرے سے الگ ہوتے دیکھنا میری زندگی کا ایسا تکلیف دہ تجربہ تھاجس نے میری شخصیت پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے۔ مَیں ہر وقت سوچتا رہتا کہ مسئلہ میرے والدین کی تربیت اور محبت میں تھا یا دونوں گھروں کے رقبے میں۔مَیں اس بارے میں جتنا سوچتا ہمیشہ اسی نتیجے پر پہنچتا کہ اس نفاق کی اصل وجہ بڑا گھر تھا جس کے الگ کمروں نے ہمارے تعلق کو پہلے عدم گفتارکے ذریعے گھائل کیا، پھر لا تعلقی کی اونچی دیواریں تعمیر کیں اور آخر میں پرائیویسی اور سٹیٹس کی کُوچیاں لے کر ان پرہمیشہ ہمیشہ کے لئے دُوری اور فاصلوں کی زرد قلعی پھیر ڈالی!

میرے والد مجھے بھی ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے مگر اپنے بڑے بھائی کے جذبات کو اس بے دردی کے ساتھ سرد ہوتا دیکھنے کے بعد مَیں نے ڈرتے ڈرتے سول انجینئر بننے کی خواہش کا اظہار کیا۔والدین اپنے بڑے دونوں بیٹوں کے حسنِ سلوک سے اس قدر خوف زدہ تھے کہ یہ سوچ کر کہ کہیں چھوٹا بیٹا بھی انہیں چھوڑ کر نہ چلا جائے انہوں نے بلا تاخیرمجھے اجازت دے دی۔انجینئرنگ یونیورسٹی میں گزارےاگلے پانچ برسوں نے والدین سے دور رہتے ہوئے بھی مجھے ان کے مزیدپاس کر دیا۔ان پانچ برسوں میں مَیں کبھی اپنے چھوٹے گھر کے کرم اور بڑے گھر کے جرم کو فراموش نہیں کر سکا بلکہ اسی تجربے نے مجھے اپنی زندگی کا نصب العین طے کرنے میں مدد دی۔سول انجینئرنگ کا امتحان امتیازی نمبروں میں پاس کرنے کے بعد جب مجھے سرکاری نوکری ملی تومیری پہلی تعیناتی دوسرے شہرمیں ہو گئی۔ الاٹ ہونے والے بے ہنگم بڑے گھر کو دیکھتے ہی میرا زخم پھر سے ہرا ہو گیا۔مَیں کھانا کھا کر جب رات کو ٹہلنے باہر نکلتا تومجھے اپنے جیسے تمام افسروں کے بڑے بڑے گھر اژدہے لگنے لگتے جو انسانوں، رشتوں اور ان کی خوشیوں کو زندہ نگل جاتے ہیں۔چھٹی گزارنے جب بھی مَیں اپنے شہر جاتا تو مجھے اپنے بوڑھے والدین اپنے بڑے گھر کی دہلیز پر خالی نظریں جمائے تنہا بیٹھے ملتے۔وہ آٹھ بچوں کے والدین ہوتے ہوئے بھی اکیلے تھے۔بیٹیاں تو پھربھی کبھی کبھار ان سے مل جایا کرتی تھیں مگر دونوں بڑے بیٹے اپنی اپنی دنیا میں مکمل طور پرگم ہو چکے تھے۔
’اولاد اور ان کے بچوں کی کلکاریوں کے بغیر یہ بڑاگھراب کچھ کچھ اولڈ ہوم جیسا لگنے لگا ہے!‘ جب ایک بارمیرے والد نے از راہِ تفنن مجھے یہ کہا تو میرادل گویا کٹ کر رہ گیا ۔اس روز تو میری آنکھیں چھلک ہی اٹھیں جب انہوں نے ایک واقعہ مجھے پڑھ کر سنایا کہ ایک شخص نے ٹیلی فون مکینک کو گھر بلایا اور اپنا ٹیلی فون چیک کرنے کو کہا۔ مکینک نے اچھی طرح ٹیلی فون چیک کرنے کے بعد انہیں بتایا کہ ان کا ٹیلی فون بالکل ٹھیک ہے تو اس شخص نے ڈبڈبائے لہجے میں پو چھاـ’اگر یہ فون بالکل ٹھیک ہے تو پھراس پر میرے بچوں کا کبھی کوئی فون کیوں نہیں آتا؟‘
ان کی اس بات نے واپسی پر بہت دن مجھے مسلسل مضطرب رکھا اور مَیں دونوں کو ضد کر کے اپنے ساتھ لے توآیامگر دو گھروں میں بٹے میرے والدین کا دھیان اس تمام عرصے بٹا ہی رہا۔تین برس بڑے بڑے سرکاری گھر تعمیر کرتے ہوئے مجھے یہی محسوس ہوتا جیسے مَیں کسی سنگین جرم کا مرتکب ہو رہا ہوں اور جب میرا صبر حد سے تجاوز کر گیا تومَیں نے اپنی زندگی کا سب سے بڑا فیصلہ کر ڈالا ۔ ایسا فیصلہ جو یونیورسٹی کے دنوں سے میرا اولین نصب العین تھا اورجسے اب پورا کرنے کا وقت آن پہنچا تھا!
اور پھروالدین ،دوست و احباب کے لاکھ سمجھانے کے باوجودمَیں نے سرکاری نوکری چھوڑ دی!!!
آج مجھے اس ملک کا نامور رئیل اسٹیٹ ٹائیکون تصور کیا جاتا ہے لیکن مَیں بخوبی جانتا ہوں کہ مَیں نے اپنے آپ کو کتنی محنت سے اور کتنی مشکلات کا سامنا کرنے کے بعد تعمیر کیا۔ برسوں پہلے جب مَیں نے اپنی ’گھروندہ‘ نام کی ایک کنسٹرکشن کمپنی کھولی اور اپنے جمع سرمائے کا تقریباً آدھا حصہ اپنے ادارے کے وژن اور مشن کی تشہیرپر صرف کرنے کے بعد بھی بہت عرصہ اپنے پہلے ٹھیکے کا انتظار بالکل یوں کیا تھا جس طرح کسان فصل کی بوائی کے بعد پہلی ابرِ رحمت کا انتظار کیا کرتا ہے۔میرے ادارے کا نصب العین صرف چھوٹے گھروں کی تعمیر تھا جبکہ پوری دنیا کو بڑے گھر درکار تھے ۔اتنے بڑے بڑے گھر جہاں لوگ تمام عمر ایک دوسرے کو تلاش کرنے کے لئے لُکن مِیٹی کا کھیل خوشی خوشی کھیل سکیں۔ اپنی کمپنی کی بقا کے لئے چند ابتدائی برس مجھے بڑے گھروں کی تعمیر کے کچھ کڑوے گھونٹ براشت کرنا پڑے لیکن پھر وہ دن آ ہی گیا جب مجھے ’عوامی گھر ‘نامی سکیم کے لئے چھوٹے گھروں کی تعمیر کا پہلابڑاپراجیکٹ ملا۔ ان چھوٹے گھروں کی تعمیرکا معیار، ڈیزائن اور قسطوں پرقیمت ادائیگی اس وقت بالکل اچھوتا آئیڈیا تھا سو اسے متوسط طبقے کے لوگوں میں بے حد پذیرائی ملی۔اس کے بعد قسمت نے میرا ساتھ دیا اور اگلے چند برس مَیں نے اوپر تلے چھوٹے گھروں کی تعمیر کے دو تین کامیاب پراجیکٹس کئے اوربحیثیت ڈیزائنر اور بلڈر دراصل مجھے چھوٹے گھروں کی ان پراجیکٹس نے ہی تعمیر کیا۔اپنی زندگی کی سب سے فیصلہ کن اور عظیم کامیابی مجھے تب ملی جب صوبائی حکومت نے صوبے کی مختلف شہروں میں کم آمدنی والے لوگوں کے لئے چھوٹے گھروں کے ڈیزائن اورتعمیر کی سکیم ’آشیانہ‘ کومتعارف کروایا اور اس کا ٹھیکہ میری کمپنی کو ملا۔اس منصوبے کے ڈیزائن اور معیاری تعمیر نے مجھے اور ’گھروندہ‘ کوپورے ملک میں شناخت عطا کی۔اس کے بعد اگلے چودہ برس تک مَیں نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا!
اور اب اس ٹی وی اینکرکا ایک سلگتا ہوا سوال اس شعلے کو پھر سے ہَوا دے رہا تھا!
ملک کا مایہ ناز بلڈر اور رئیل اسٹیٹ ٹائی کُون جس نے اس ملک میں شہر کے شہر بسائے تھے مگر خود ایک دو کمروں کے چھوٹے اور سادہ سے گھر میں رہتا تھا۔یقیناًاس کے پیچھے فلاسفی بھی تھی اور ماضی سے جُڑی ایک تلخ کہانی بھی!
’سر آپ اتنی شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔۔۔۔۔آپ ہمیشہ چھوٹے گھرانوں کے لئے گھر بناتے ہیں مگر آپ کا اپنا کوئی گھرانہ نہیں ہے۔۔۔۔۔آپ اتنے پراسرار اور تنہا کیوں ہیں۔۔۔۔۔آپ نے دوسرے بڑے لوگوں کی طرح اس مقام تک پہنچنے کی کیا قیمت ادا کی ہے؟‘
’محترمہ ۔۔۔۔۔مَیں ٹی وی پروگراموں، انٹرویوز اور میڈیا سے دُور رہنے والا شخص ماناجاتا ہوں۔۔۔۔۔اس کی بنیادی وجہ محض یہ رہی ہے کہ مجھے اپنی تشہیر اور خود نمائی سے سخت نفرت ہے ۔۔۔۔۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے پہلے کبھی کسی نے میری ذات کے اس مخفی پہلو کے متعلق کوئی ایسا سوال اس سے پہلے مجھ سے نہی پوچھا تھا۔۔۔۔مَیں چاہوں تو آپ کے سوال کو ذاتی قرار دے کر با آسانی نظر انداز کر سکتا ہوں مگر زندگی میں کسی نے پہلی بار یہ سوال پوچھا ہے تو آج مَیں اپنی ذاتی زندگی کے بارے میں چند باتیں ضرور کہنا چاہوں گا۔۔۔۔۔مَیں نے اپنی زندگی میں سب بڑی باتیں اپنے اس چھوٹے سے گھر سے سیکھیں جہاں مَیں نے آنکھ کھولی۔۔۔۔۔ہمارا بڑا کنبہ جب تک اس چھوٹے سے گھر میں تھاہم ایک تھے۔۔۔۔۔ہمارے خواب، ہماری خوشیاں، ہمارے مسئلے ایک تھے۔۔۔۔۔ہم سب ایک جگہ بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے،ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے، ایک جگہ بیٹھ کر ہنستے اور ایک جگہ بیٹھ کر رویا کرتے تھے۔۔۔۔۔پھر وقت نے ہم سے وہ چھوٹا گھر چھین کر ہمیں بڑا گھر دیا۔۔۔۔۔اس بڑے گھر نے ہم سب کو چھوٹا اور تنہا کر دیا۔۔۔۔۔محبتیں گھٹنے لگیں،لہجوں میں خود غرضیاں جھلکنے لگیں،باتیں چھپائی جانے لگیں،ہنسی قہقہے گم ہونے لگے اور ایک ایک کر کے سب اپنی الگ دنیاؤں میں کھوگئے۔۔۔۔۔اس بڑے گھر نے ہمیں ایسا جدا کیا کہ آج تک ہم دوبارہ نہیں مل سکے اور نہ ہی شاید کبھی مل سکیں۔۔۔۔۔سول انجینئرنگ کرتے ہوئے مَیں نے تہیہ کیا تھا کہ مَیں ساری زندگی چھوٹے گھر بناؤںگا اور چھوٹے گھروں کو پروموٹ کروں گا۔۔۔۔۔ایسے چھوٹے گھر جن کے سب دروازے ایک جگہ کھلتے ہوں۔۔۔۔۔جہاں ایک ساتھ رہتے ہوئے لوگ کبھی ایک دوسرے سے دُور نہ ہوں۔۔۔۔۔ان کے درمیان گفتگو کبھی موقوف نہ ہو۔۔۔۔۔ایک گھر میں رہتے ہوئے جب لوگ ایک دوسرے سے بات کرنا چھوڑ دیتے ہیں تو وہ دراصل ایک دوسرے کے بِیچ ایسی اونچی دیوار تعمیر کر رہے ہوتے ہیں جس کو وہ چاہیں بھی تو عبور نہیں کر سکتے اور نہ ہی ایک دوسرے کو کبھی دیکھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔مَیں نے اپنی زندگی کے اس نصب العین کے لئے اپنی سرکاری نوکری چھوڑکر اپنی کنسٹرکشن کمپنی کھولی۔۔۔۔۔ ابتدائی چند سالوں کے سوازندگی میں اربوں روپے کے پروجیکٹ صرف اس لئے چھوڑ دئیے کیونکہ ان میں مجھے بڑے گھر تعمیر کرنا پڑتے اور یہ مجھے کسی صورت گوارا نہیں تھا کیونکہ مجھے بڑے گھروں سے اوران کی تعمیر سے کمائے جانے والے پیسے دونوں سے نفرت ہے ۔۔۔۔۔لوگوں نے مجھے پاگل کہا۔۔۔۔۔کئی لوگ میرا ساتھ چھوڑ گئے مگر مَیں نے اپنے نصب العین پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا۔۔۔۔۔زندگی میں جس لڑکی سے مَیں نے شدیدمحبت کی اس نے مجھے صرف اس بنا پر ٹھکرا دیا کہ چونکہ وہ خودبڑے گھر میں پلی بڑھی تھی سو میرے ساتھ چھوٹے گھر میں رہنے کے لئے آمادہ نہیں تھی۔۔۔۔۔اس واقعے کے بعد مجھے بڑے گھروں کے ساتھ ساتھ شادی سے بھی نفرت ہوگئی۔۔۔۔۔آج میرے پاس کتناپیسہ ہے مجھے خود بھی اس کی خبر نہیں مگر مَیں آج بھی اپنے ضعیف والدین کے ساتھ دو کمروں کے ایک چھوٹے گھر میں رہتا ہوں۔۔۔۔۔تعمیراتی زبان میں مکان کی بنیاد بھلے ہی اینٹوں،ریت، سریے اور سیمنٹ سے رکھی جاتی ہو مگرمضبوط انسانی تعلقات کی بنیاد ایک دوسرے پر توجہ ،ایک دوسرے کے ساتھ گفتگوبرقرار رکھنے اور محبت و اخلاص جیسے اوصاف کی مدد سے رکھی جاتی ہے۔۔۔۔۔میرا ایمان ہے کہ ایک چھوٹا گھر ہی انسانوں کو مضبوط ڈور میں باندھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔۔۔۔۔ عمر کی اڑتالیس بہاریں دیکھنے کے باوجود اگرچہ میرا اپنا کوئی گھرانہ نہیں مگر میرے گھروں کا ڈیزائن مضبوط گھرانوں کی تعمیر کرتا ہے۔۔۔۔۔میرے بنائے گھروں میں آج تک جتنے بھی گھرانے آبادہوئے وہ سب میرے گھرانے ہیں۔۔۔۔۔جب تک زندہ ہوں چھوٹے گھر تعمیر کرتا رہوں گااور دنیاکوچھوٹے گھر کی افادیت یاد دلاتا رہوں گا۔۔۔۔۔وقت ایک روز میرے نقطۂ نظر کوصحیح ثابت کرے گا کہ صرف چھوٹے گھر میں ہی یہ صلاحیت ہے کہ وہ دلوں میں وسعتیں اور محبتیں پیداکرتا ہے کیونکہ میرا ایمان ہے کہ دل میں جتنی محبت اور وسعت ہو، گھر کا رقبہ اُتنا ہی بڑھتا چلا جاتا ہے!!!‘

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے