fbpx
افسانچہ

محبت اور بھوک / قرۃالعین شعیب

محبت اور بھوک

دروازے آہٹوں سے تنگ آ کر بند پڑے تھے۔ کھڑکیاں منہ کھولے سو رہی تھیں۔ روشندان روشنی اور ہوا سے الجھ الجھ کر گرد میں اٹے گرے پڑے تھے۔ صحن بانہیں پھیلائے تھکا ہارا اداس بیٹھا تھا۔ کمروں میں اندھیرے جاگ رہے تھے۔ اور ٹیرس پر اداسی کو سوکھنے کے لیے ڈال کر وہ کچن کی طرف چلی گئی۔
کچن میں ہر طرف بے بسی اور غربت نے وہ طوفان بدتمیزی برپا کر رکھا تھا کہ چولہا جلانے کو ماچس نہیں مل رہی تھی اور پیٹ میں ڈالنے کو ایندھن نہیں بچا تھا۔ غربت اور بے بسی کے ہاتھوں ذلت اٹھائے وہ رونے لگی۔ لیکن آنسو رخسار پر پہنچنے سے پہلے ہی جل جاتے۔ بخار کی شدت سے اس کا دل پگھلنے لگا۔ وہ دوڑی اس سے پہلے کہ اس کا دل بھی جل جائے۔
دروازے نے کھلنے سے انکار کر دیا۔
وہ بیٹھ گئی۔ دروازہ کسی جابر سلطان کی طرح تن کر کھڑا تھا۔ وہ منتیں کرنے لگی۔ جہاں پناہ رہائی۔ دروازہ زور زور سے قہقہے لگانے لگا۔ اور وہ وہیں نیم بے ہوش صحن کی بانہوں میں جا گری۔ اتنے میں کہیں دیواروں میں ساز بجنے لگی۔ سرگوشیاں گنگنانے لگیں۔ آسمان نے بادل زمین پر بھیج دیئے۔ وہ بھیگی ہوئی اٹھی اور بھاگ کر پھر دروازے کے قدموں میں جا بیٹھی۔ بوسیدہ مگر تن کر کھڑے دروازے نے انگڑائی لی اور دھیرے سے کھل گیا۔
وہ بہت تیز بھاگی بہت دیر بھاگنے کے بعد جب اس نے مڑ کر دیکھا تو دروازے نے قہقہ لگایا۔ وہ شاید چند قدم بھی نہیں چل پائی اور وہیں ڈھیر ہو گئی۔
گلی میں جا بجا کھڑے کیکر اس کے بوسیدہ گیلے کپڑوں کو دیکھتے اور اور اپنے کانٹوں کو سنبھالتے۔ آگے بڑھنے کا حوصلہ کسی میں نہ تھا کہ اس کے لیے اپنی مٹی اور زمین کو چھوڑنا پڑنا تھا۔ وہ نیم بےہوشی میں اٹھی اور سڑک کے کنارے چلنے لگی۔ وہ کون تھی اور کہاں تھی اس کے دماغ نے اسے بتانے سے انکار کر دیا۔ سڑکیں بل دار زلفوں کی طرح الجھی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ مڑ کر دیکھا تو دروازہ دھندلا گیا ۔ اسے لگا کہ اس کے منظروں پر کسی نے سیاہی مل دی ہے ۔اور اسے اپنے گھر کی بوسیدہ دیواروں میں بجتے ساز بلانے لگے اور وہ بھوک کی سلوٹوں کو سمیٹے پیٹ سے باتیں کرنے لگی۔

بے تحاشہ محبت کے باوجود
دل بالکل خالی رہتے ہیں
اور پیٹ؟
محبت سے دل اور پیٹ
دونوں نہیں بھرتے
چاہنے والے ساری عمر
چاہے جانا چاہتے ہیں
اور چاہے جانے والے
مزید چاہے جانے کا تقاضا کرتے ہیں
عمریں ڈھل جاتی ہیں
محبت نہ ملنے کا ملال
سب کو ملول رکھتا ہے

بے تحاشہ محبت کے باوجود
دلوں کا برتن سدا خالی رہتا ہے

اور پیٹ
محبت سے پیٹ نہیں بھرتا
پیٹ روٹی مانگتا ہے
روٹی عزت سے ملے یا ذلت سے
اسے پرواہ نہیں
یہ ہمیشہ مزید کھائے جانے کی ڈیمانڈ کرتا ہے

آخری جملے پر پیٹ اور وہ مل کر ہنسنے لگے ۔ اتنے میں ایک کیکر آگے بڑھا ۔اس نے اپنے پیلے پھولوں سے بھری پلیٹ اس کے سامنے رکھ دی۔ وہ بھوک سے بلکتی اس پر ٹوٹ پڑی۔ چند کانٹے بھی حلق میں اٹکے مگر یہ چھ مہینوں میں ملنے والا پہلا لذید اور تازہ کھانا تھا۔

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے