fbpx
منتخب کالم

   وفا کی کہانی/ پروفیسر مدثر اسحاق

سرکار دو عالم ؐکے جدّ امجد جناب عبدالمطلب آپؐ کی ذات میں ”نورِ نبوت“ ایک عرصے سے دیکھ چکے تھے۔ سرکارؐکے اپنے ”جد امجد“ کے ہمراہ گزرے ہوئے تمام ایام بڑے بابرکت تھے۔ جناب عبدالمطلب آپ ؐ کو اکابر“ کی محفلوں میں لے جاکر آپؐ کا اعزاز و اکرام کرتے۔ شاید سرکار ؐ کی ذات میں انہیں ایک نجات دہندہ (Savior) دکھائی دے رہا تھا، کیونکہ وہ آپؐ کی نگاہوں کی اس گہرائی کو دیکھ چکے تھے جو کسی اور کی نگاہوں میں نہ تھی، نیز انہوں نے اپنے جد امجد”لوی بن کعب“سے مروی وہ روایات بھی سن رکھی تھیں، جن کے مطابق ان کی نسل میں ایک ”نبی“ (Prophet)کا  ظہور ہونے والا تھا۔ شاید انہی وجوہات کے سبب حضرت عبدالمطلب نے آپ  ؐ میں نبوت کی علامات دیکھ لی تھیں، اور ان کے دل میں اپنے ”پوتے“ کی محبت اس قدر رَچ بس گئی تھی کہ جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو وہ ”عبدالمطلب“ جن کی آنکھیں ”ابرہہ“ کے لشکر کے سامنے نہ جھپکیں اور کئی دشمن قبائل کے ساتھ سالہا سال تک لڑی جانے والی ”جنگ فجار“ کے دوران جن کی آنکھوں سے ایک آنسو نہ ٹپکا، آج وہ اپنی وفات کے وقت اپنے باسعادت ”پوتے“ کی جدائی کے غم میں بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہے تھے، کہ آئندہ وہ اپنے پوتے ”محمد  ؐ“ کو اپنے سینے سے نہ لگا سکیں گے۔ اس طرح ”عبدالمطلب“ کی وفات کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی تخلیق کا یہ دُرِّ یکتا اپنے پیارے چچا ”جناب ابو طالب ؑ“ کی کفالت و پرورش میں آگیا۔

جناب ابو طالب نے 40سال تک آپ  ؐ کی حفاظت و حمایت کا فرض ادا کرکے اپنی ذمہ داری کو بخوبی نبھایا، جس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ”حضرت علی“ جیسے ہونہار بیٹے سے نوازا، جنہیں اللہ تعالیٰ نے یہ شرف عطاء کیا کہ آپ ؓ کے ذریعے سرکار  ؐکے ”نسب مبارک“ کی حفاظت کا انتظام کیا۔ حضرت علی ؓ رسول اللہ ؐ کی ”ولایت“ کے نمائندے ہیں، یہی وجہ ہے کہ قیامت تک تمام اہل طریقت و تصوف آپؓ  کی پیروی کرتے رہیں گے اور آپؓ  کا نام ادب و احترام سے لیا جاتا رہے گا۔

اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علیؓ کے یہ تمام فضائل درحقیقت آپؓ کے والد جناب ابو طالب کی جانب سے مشکل وقت میں سرکار ؐ کی حمایت و نصرت کرنے کا صلہ ہیں۔ 

اسی صلے کا تسلسل کہ حضرت علیؓ کو ”علی المرتضیٰ“ ”بہادر شاہسوار“ اور ”حیدر کرار“ جیسے القاب اور رسول اللہ ؐ کی دامادی، ایسے مقام سے نوازا گیا، لیکن اس سے یہ نہ سمجھا جائے کہ ا ٓپ ؐ کے چچا ابو طالب اور دادا عبدالمطلب کی نصرت و حمایت آپ ؐکی کامیابیوں کا پیش خیمہ تھی، بلکہ درحقیقت آپ ؐ کی اصل حامی و ناصر تو ”اللہ تعالیٰ“کی ذاتِ عالیہ ہی تھی۔

یہ وہ زمانہ تھا، جس میں اللہ تعالیٰ ایک طرف سرکار ؐکی نابغہئ روزگار شخصیت کو پروان چڑھاکر منصب نبوت کے لئے تیار کر رہے تھے، تو دوسری طرف معاشرے کو آپ ؐ کی دعوتِ نبوت کو قبول کرنے کے لئے تیار کر رہے تھے، یہی وجہ تھی کہ روز بروز آپ  ؐ کی نبوت کی علامات کا ظہور ہورہا تھا اور ہر کوئی آپ ؐ کے بارے میں گفتگو کرنے لگا تھا۔ آپ ؐ ہر کسی کے لئے ”جانی پہچانی“ شخصیت بن گئے۔ اور آپ  ؐ کی شخصیت ہر محفل کے لئے ایک زندہ موضوع (Burning Issue)کی حیثیت اختیار کر گئی۔ 




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے