fbpx
خبریں

فارغ بخاری: ترقی پسند شاعر اور ادیب کا تذکرہ -/ اردو ورثہ

اردو اور علاقائی ادب و ثقافت میں اپنے تخلیقی کام کی وجہ سے مقام و مرتبہ پانے والوں میں فارغ بخاری بھی شامل ہیں جو ادیب، شاعر اور نقّاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔ انھوں نے اردو کے علاوہ پشتو زبان میں ادب تخلیق کیا اور ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ ان کا تعلق پشاور سے تھا اور پشتو ان کی مادری زبان تھی۔

فارغ بخاری نے جس زمانے میں آنکھ کھولی وہ برصغیر میں سیاسی، سماجی اور ادب میں بھی بڑی تبدیلیوں کا زمانہ تھا۔ ادیب اور شعراء روایتی موضوعات اور افسانوی باتوں سے نکل کر حقیقت پسندی اور عام مسائل کو بھی اپنی تخلیقات میں سمو رہے تھے۔ فارغ بخاری نے بھی اسی کا اثر قبول کیا۔ وہ ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوئے اور اس زمانے میں قید و بند کی صعوبتیں بھی جھیلیں۔ فارغ بخاری 14 اپریل 1997ء کو وفات پا گئے تھے۔ ان کا اصل نام سید میر احمد شاہ تھا۔ 11 نومبر 1917ء کو پیدا ہونے والے فارغ بخاری نے پشتو زبان و ادب اور ثقافت کے فروغ کے لیے بیش بہا کام کیا۔ وہ رضا ہمدانی کے ساتھ علمی، تحقیقی اور ادبی کام کرتے رہے اور ان کی مشترکہ تصانیف میں ادبیاتِ سرحد، پشتو لوک گیت، سرحد کے لوک گیت، پشتو شاعری اور پشتو نثر شامل ہیں۔ فارغ بخاری کو ان کی ادبی اور ثقافتی خدمات پر حکومت پاکستان نے صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا تھا۔

فارغ بخاری نے اردو شاعری میں بھی نام و مقام پیدا کیا۔ ان کے شعری مجموعوں میں زیر و بم، شیشے کے پیراہن، خوشبو کا سفر، پیاسے ہاتھ، آئینے صدائوں کے اور غزلیہ شامل ہیں۔ ان کی نثری کتب میں شخصی خاکوں کے دو مجموعے البم، مشرقی پاکستان کا رپورتاژ، براتِ عاشقاں اور خان عبدالغفار خان کی سوانح عمری باچا خان شامل ہیں۔

فارغ بخاری کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

یاد آئیں گے زمانے کو مثالوں کے لیے
جیسے بوسیدہ کتابیں ہوں حوالوں کے لیے

سالہا سال عقیدت سے کھلا رہتا ہے
منفرد راہوں کا آغوش جیالوں کے لیے

دیکھ یوں وقت کی دہلیز سے ٹکرا کے نہ گر
راستے بند نہیں سوچنے والوں کے لیے

رات کا کرب ہے گلبانگ سحر کا خالق
پیار کا گیت ہے یہ درد اجالوں کے لیے

شبِ فرقت میں سلگتی ہوئی یادوں کے سوا
اور کیا رکھا ہے ہم چاہنے والوں کے لیے

Comments




Source link

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے