fbpx
خبریں

“جہانِ آرزو” کے خالق آرزو لکھنوی کا تذکرہ -/ اردو ورثہ

اردو شاعری میں‌ غزل جیسی مقبول صنف کو ابتداً وارداتِ قلبی، وفورِ شوق اور کیفیات سے سجانے کے ساتھ داخلیت کو اہمیت دی جاتی تھی، اور استاد شعرا اپنے کلام کو تشبیہات و استعارات، رعایتِ لفظی اور معنی آفرینی سے انفرادیت عطا کرتے تھے۔ آرزو لکھنوی نے اسی دور میں خوش گوئی اور نازک خیالی سے غزل کو بڑا وقار بخشا۔

نوعمری میں آرزو لکھنوی نے شاعری کا آغاز کردیا تھا۔ وہ لکھنؤ کے ایک ایسے گھرانے کے فرد تھے جس کا اوڑھنا بچھونا ہی شاعری تھا۔ شہر لکھنؤ‌ کی وہ خاص فضا جس میں بڑے بڑے مشاعرے منعقد ہوتے اور زبان و ادب کے بلند قامت نام ان کا حصّہ بنتے، اور اس پر آرزو کے گھر کا ادبی ماحول۔ سیّد انوار حسین نے شاعری شروع کی تو خود کو آرزو لکھنوی کہلوانا پسند کیا۔ یہی اردو شاعری میں ان کی پہچان اور شناخت بنا۔ تقسیم کے بعد آرزو پاکستان ہجرت کرکے آگئے تھے اور یہاں 16 اپریل 1951 کو ان کا انتقال ہوا۔

آرزو لکھنوی نے غزل کہی اور خوب کہی۔ اس کے ساتھ انھوں نے فلمی گیت نگاری بھی کی۔ انھوں نے ریڈیو کے لیے چند ڈرامے اور فلموں کے مکالمے بھی لکھے۔ لیکن ان کی وجہِ شہرت شاعری اور خاص طور پر غزل گوئی ہے۔ آرزو لکھنوی نے جن فلموں کے مکالمے لکھے ان میں اسٹریٹ سنگر، جوانی کی ریت، لگن، لالہ جی، روٹی، پرایا دھن اور دیگر شامل ہیں۔ اس زمانے میں کلکتہ فلم اور تھیٹر سے متعلق سرگرمیوں کا مرکز تھا اور آرزو لکھنؤ نے وہاں قیام کے دوران فلموں کے لیے کام کیا۔

اردو زبان کے اس معروف شاعر کا کلام فغانِ آرزو، جہانِ آرزو اور سریلی بانسری کے عنوان سے کتابوں میں محفوظ ہے۔ آرزو لکھنوی کے دو اشعار ملاحظہ کیجیے۔

دفعتاً ترکِ تعلق میں بھی رسوائی ہے
الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا دے کر

وفا تم سے کریں گے، دکھ سہیں گے، ناز اٹھائیں گے
جسے آتا ہے دل دینا اسے ہر کام آتا ہے

Comments




Source link

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے