ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جس کا اعتماد پولیس اور عدلیہ پر سے اٹھ چکا ہے اور میں یہ بات سیاسی طور پر نہیں کر رہا بلکہ عوام کی مشکلات کے حوالے سے کر رہا ہوں۔
اکثر سوشل میڈیا پر ایسی پوسٹوں پر نظر پڑتی ہے جس میں کوئی خاتون جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ جنسی ہراسانی ہوئی اور اس جنسی ہراسانی نے ان کی زندگی پر کیا اثرات مرتب کیے۔
پچھلے سال ہی میری بیٹی جو یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ یونورسٹی سے آتے ہوئے پیٹرول پمپ کی جانب مڑی۔ اس کے دائیں جانب پر موٹر سائیکل سوار تھا جو کافی پیچھے تھا۔
گاڑی موڑی اور پیٹرول پمپ پر رکی اور موٹر سائیکل سوار وہاں پہنچا اور ہیلمٹ اتارے بغیر میری بیٹی کو برا بھلا کہنے لگ گیا اور گالیاں نکالیں۔
میری بیٹی ہکا بکا اس کا منہ دیکھتی رہ گئی اور اس سے پہلے کہ پمپ کے ملازمین دخل اندازی کرتے وہ موٹر سائیکل سوار وہاں سے چلتا بنا۔
ویڈیو نکلوائی کہ کسی طرح موٹر سائیکل کا نمبر معلوم ہو جائے تو پولیس کو دیا جائے۔ سوشل میڈیا کا سہارا لیا اور پولیس کے رپورٹ کرنے ہی والے تھے کہ ایک سوشل میڈیا پر پوسٹ کے جواب ایک صاحب کا کمنٹ آیا۔ اس کمنٹ نے ہوش اڑا دیے۔ کمنٹ تھا ’مشہور ہونے کا اچھا طریقہ ہے۔‘
خیر، حال ہی میں ایک محفل میں بیٹھے تھے اور بات چیت ہراسانی کی طرف چل پڑی۔
میں نے اپنی بیٹی کا واقعہ سنایا تو ایک دوست نے کہا کہ اس کی بیٹی کے ایک بہت قریبی دوست جس کا ان کے گھر آنا جانا تھا اور وہ اس کو اپنے بیٹے کی طرح مانتے تھے، اس نے ان کی بیٹی کے ساتھ جنسی ہراسانی کو کوشش کی۔
پہلے تو ان کی بیٹی نے والدین کو نہیں بتایا لیکن اس خاموشی نے اس لڑکے کو اور دلیر کر دیا۔ اس لڑکے نے لڑکی کے بارے میں طرح طرح کی باتیں پھیلانی شروع کر دیں کہ اصل میں اس لڑکی نے ہی پہل کی تھی اور جب میں نے منع کیا تو وہ اب جھوٹ بول رہی ہے۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اس لڑکے نے ایسا پہلی بار نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس لڑکی کی سہیلیوں کے اور دیگر لڑکیوں کے ساتھ بھی یہی حرکت کر چکا تھا۔
میرے دوست کی بیٹی نے اپنے دوستوں کو بتایا اور کہا کہ اس لڑکے سے ملنا بند کر دو اور میرے اور اس لڑکے میں سے ایک کا انتخاب کرو کہ کس کے ساتھ دوستی رکھنی ہے۔
جواب میں دوستوں نے کہا کہ ’اس واقعے کو زیادہ مت اچھالو اور خاموش رہو۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا کرتی، کیا نہ کرتی، اس نے آخر میں ماں باپ کو بتایا۔ ماں باپ نے پہلے سوچا کہ اس لڑکے کے والدین سے ملیں اور بات کریں۔ پھر انھوں نے سوچا کہ بیٹی ہماری ہے اور ان کا جواب یہی ہو گا کہ اپنی لڑکی کو سنبھالو۔
پھر سوچا کہ پولیس میں رپورٹ کی جائے۔ پھر سوچا کہ پولیس بھی معلوم نہیں کہ کتنے سوال کرے اور کس قسم کے سوال کرے۔ اور آخر میں پولیس تو یہی کہے گی کہ پرچہ کٹوائیں اور بات عدالت میں جائے گی۔
عدالت میں اس قسم کے کیسوں کے ساتھ جو ہوتا ہے اس سے اور کچھ ہو یا نہ ہو بیٹی ذہنی طور پر مکمل طور پر تباہ ہو جائے اور بدنامی علیحدہ۔
تو پھر اب کیا؟ اب کیا، وہ لڑکی تھیراپسٹ کے پاس جاتی ہے جس نے اس کو کہا ہے کہ اس لڑکے کی وجہ سے تم اپنے دوستوں سے دور کیوں ہوتی ہے بلکہ اس کا سامنا کرو۔ اس کے ساتھ بولو نہیں اور اگر دوستوں کے محفل میں وہ ایک قدم تمہاری طرف بڑھاتا ہے تو تم دو قدم پیچھے ہٹ جاؤ۔
وہ لڑکا چاہتا ہے کہ تم ایسا قدم اٹھاؤ جس کو وہ تمہارے خلاف ہی استعمال کر سکے۔ اور جب تم ایسا نہیں کرو گی تو وہ فرسٹریشن میں کوئی ایسا قدم اٹھائے گا جس سے اس کی اصلیت سب کے سامنے آ جائے گی اور باقی دوست بھی پیچھے ہٹ جائیں گے۔
لیکن اس بچی کا حال دیکھیں کہ وہ اپنے ہی گھر میں اس صوفے پر بیٹھنا تو دور کی بات اس کی جانب دیکھتی بھی نہیں جس پر وہ لڑکا آ کر بیٹھتا تھا۔
وہ بچی ہر اس چیز کو تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کو اس لڑکے نے چھوا ہو یا اس پر بیٹھا ہو۔ ماں باپ بھی کیا کریں، وہ اپنے گھر کا فرنیچر تبدیل کر رہے ہیں تاکہ بیٹی ذہنی تناؤ سے باہر نکلے اور اپنے مستقبل پر توجہ دے۔
مجھے یقین ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے سفید پوش افراد ہیں جن کو ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہو گا اور وہ بھی خاموش بیٹھے ہوں گے کہ اب کیا کریں اور کیا نہ کریں۔
ہو سکتا ہے کہ یہ لڑکیاں اور لڑکے آج سے 25، 30 سال بعد کسی سوشل میڈیا پر ’می ٹو‘ مہم میں اپنی کہانی سنائیں۔ اور ان کی اس کہانی پر کئی لوگ اپنی کہانیاں سنائیں گے اور کئی لوگ ان ہی کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہیں گے کہ ’مشہور ہونے کا اچھا طریقہ ہے۔‘
یہ تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔