چیف آف جنرل سٹاف اور آرمی چیف جنرل سر پیٹرک سینڈرز نے اپنے اختتامی خطاب میں برطانیہ کی موجودہ آبادی کو ’جنگ سے پہلے کی نسل‘ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب ’ہمارے معاشروں کو جنگی بنیادوں پر کھڑا کرنے کے قابل بنانے کے لیے تیاری کے اقدامات‘ کرنے کی ضرورت ہے۔
ولادی میر پوتن کے روس کے خلاف ’قومی تحریک‘ ایسے الفاظ ہیں، جس کا چند سال پہلے تک تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا، لیکن یوکرین پر مکمل حملے اور کریملن کی جانب سے مسلسل جارحانہ موقف نے اچانک ان تصورات کو مرکزی دھارے میں شامل کر دیا ہے۔
جنرل سینڈرز کی ’جنگ سے پہلے کی نسل‘ سے کیا مراد ہے؟
بالکل یہی مراد ہے۔ دیوار برلن گرنے، سرد جنگ کے خاتمے اور 1990 کے لگ بھگ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تقریباً دو دہائیوں تک، مغرب سوویت یونین کے ساتھ جنگ کے درمیانی مدت کے خطرے کے بارے میں فکرمند ہونے سے بچنے میں کامیاب رہا کیونکہ اس کا وجود ہی نہ رہا تھا۔
مغربی حکومتوں نے جلد ہی ’امن کے ثمرات‘ کا فائدہ اٹھایا، اپنے آپ کو جزوی طور پر غیر مسلح کر دیا اور دفاعی اخراجات کو نجی ضروریات پوری کرنے اور عوامی خدمات کی طرف موڑ دیا۔
اب مفروضہ یہ ہے کہ روس اور / یا دیگر طاقتوں کے ساتھ جنگ زیادہ دور کی بات نہیں ہے۔ جیسا کہ وزیر دفاع گرانٹ شیپس نے حال ہی میں کہا تھا: ’پانچ سالوں میں ہم مختلف جغرافیائی سیاسی تنازعات یا فوجی کشیدگی کا سامنا کر سکتے ہیں جن میں روس، چین، ایران اور شمالی کوریا شامل ہوں گے۔ اپنے آپ سے پوچھیں: آج کے تنازعات کو دیکھتے ہوئے کیا لگتا ہے کہ یہ تعداد بڑھے گی یا کم ہو گی؟ مجھے شک ہے کہ ہم سب اس کا جواب جانتے ہیں: اس میں اضافے کا امکان ہے، لہٰذا 2024 ایک اہم موڑ ہونا چاہیے۔‘
جنرل سینڈرز کیا چاہتے ہیں؟
جنرل سینڈرز کے خیال میں ’قوم کو متحرک‘ کرنے کی بنیادیں روس کے ہمسایہ یا قریبی ممالک تک محدود نہیں رہ سکتیں اور اس کے نتیجے میں برطانیہ میں عام لوگ کسی نہ کسی طرح برطانیہ کی 74,110 کل وقتی باقاعدہ فوج کو مضبوط کرنے پر مجبور ہوں گے تاکہ یورپ میں موجود خطرے سے بچا جا سکے۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جنرل سینڈرز کے اپنے الفاظ میں: ’ہم اس سے محفوظ نہیں رہیں گے اور جنگ سے پہلے کی نسل کی حیثیت سے ہمیں اسی طرح کی تیاری کرنی ہو گی – اور یہ ایک پوری قوم کا کام ہے۔ یوکرین نے دکھا دیا ہے کہ باقاعدہ فوجیں جنگیں شروع کرتی ہیں۔ شہری افواج انہیں جیتتی ہیں۔‘
جیسا کہ وزارت دفاع نے فوری وضاحت کی، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لازمی بھرتی دوبارہ شروع ہو جائے گی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نوجوان شہریوں سے جنگ کے حالات میں رضاکارانہ طور پر کام کرنے کی توقع کی جائے گی اور ہر ایک کو روس کی شکست تک ’مکمل جنگ‘ کی کوششوں میں معاونت کرنی ہو گی۔
کیا یہ صرف مخصوص درخواست ہے؟
صرف تبدیلی کے لیے، ایسا لگتا ہے کہ اس میں سے زیادہ کچھ نہیں ہے، لیکن ہر ملک میں ہر حاضر سروس چیف پیسے، سازوسامان اور وسائل کی کمی کی شکایت کرتا ہے۔
بحیرہ جنوبی چین سے لے کر افغانستان تک کم ہی ایسے مسائل والے مقامات موجود ہیں جہاں برطانیہ نے کوئی فوج نہیں بھیجی اور اکثر قائدانہ کردار میں۔
اس کے باوجود قومی آمدنی کے تناسب کے لحاظ سے دفاعی اخراجات سکڑ گئے ہیں اور نپولین کی جنگوں کے بعد سے اب تک برطانوی فوج اپنی سب سے کم تعداد تک سکڑ گئی ہے۔
موجودہ حکومت نے افواج کے لیے مزید فنڈز فراہم کرنے کے مسلسل وعدے کیے ہیں، لیکن یہ قومی آمدنی کے دو فیصد سے زیادہ نہیں ہیں، جو سرد جنگ کے دوران اس کا دگنا تھا۔ یہ بچت طویل عرصے سے برطانوی صحت کے ادارے این ایچ ایس کے لیے وقف ہے اور یہ دیکھنا مشکل ہے کہ کسی اور جگہ سے کم کے بغیر جمود کا شکار معیشت میں دفاعی اخراجات کو کس طرح بڑھایا جائے گا۔
برطانیہ کا جوہری ڈیٹرنس کہاں گیا؟
سپر پاورز کے پاس موجود ایٹمی ہتھیاروں کے وسیع ذخیرے نے بنیادی طور پر دوسری جگہوں پر پراکسی جنگوں کو نہیں روکا، نہ ہی انہوں نے حال ہی میں روس، ایران، چین اور شمالی کوریا کی جارحانہ سرگرمیوں پر قدغن لگائی ہے۔
یہ بالکل قابل فہم ہے کہ یوکرین اور غزہ میں جاری جنگوں میں سے کوئی بھی مزید پھیل سکتی ہے اور دوسری طاقتیں اس میں شریک ہو سکتی ہیں۔
اگرچہ یورپ میں روسی فوجیوں کے ساتھ امریکی، برطانوی، پولش، جرمن اور دیگر مغربی افواج کی براہ راست لڑائی کے متعلق سوچنا فی الحال مشکل لگتا ہے، لیکن اس سے انکار ممکن نہیں۔
اس طرح کی جنگ روایتی ہتھیاروں سے لڑی جا سکتی ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا مطلب یہ ہو کہ ایک قیامت خیز ایٹمی جنگ برپا ہو – لیکن جوہری ہتھیاروں کی موجودگی کا مقصد سپر پاورز کے درمیان روایتی جنگوں کو روکنا تھا۔
باہمی طور پر یقینی تباہی اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کے امکان کے علاوہ تیسری عالمی جنگ عالمی معیشت کو تباہ کر دے گی اور کرۂ ارض کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ غیر متوقع ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کی کسی بھی امید کو ختم کر دے گی۔
اس بیان کی سیاست کیا ہے؟
اگر لیبر پارٹی اب بھی برطانوی لیبر پارٹی کے سابق رہنما جیریمی کوربن کے پیروکاروں کی گرفت میں ہوتی تو جنگ کے خطرات اور جوہری ہتھیاروں کی افادیت کے بارے میں ایک جاندار بحث ہوتی۔
موجود صورت حال میں، اگرچہ غزہ اور صدر پوتن کی جانب سے درپیش خطرات کے حوالے سے دونوں بینچوں (حکومت اور اپوزیشن) کے درمیان وسیع تر اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ کوئی بھی اہم پارٹی بڑے دفاعی بجٹ کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔
تو کیا روس اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ جنگ ہو گی؟
ایسا ہونا ناممکنات میں شامل نہیں ہے۔ مغرب – یورپ، شمالی امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا وغیرہ – کے پاس بہتر ٹیکنالوجی اور بنیادی طور پر بڑی معیشتیں ہوں گی، لیکن روس اور چین دونوں کو اپنی زیادہ آبادی اور اپنی بڑی صنعتوں کے لحاظ سے بڑی سبقت حاصل ہے۔ یوکرین کے موجودہ تنازعے کا سبق کم و بیش یہی ہے۔
باہمی طور پر یقینی تباہی اور لاکھوں جانوں کے ضیاع کے امکان کے علاوہ، تیسری عالمی جنگ عالمی معیشت کو تباہ کر دے گی اور کرۂ ارض کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کے علاوہ غیر متوقع ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کی کسی بھی امید کو ختم کر دے گی، اس لیے جنرل سینڈرز کا فکرمند ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔