نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے 8 فروری کے انتخابات کے بعد اپنی پہلی نیوز کانفرنس میں کہا ہے کہ کسی ملک کے کہنے پر انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات نہیں کریں گے۔
میڈیا کے نمائندوں سے وزیراعظم ہاؤس اسلام آباد میں گفتگو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ یورپی یونین، برطانیہ اور امریکہ دوست ممالک ہیں لیکن وہ اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے ہیں۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ ان ممالک نے سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کو صحیح مان لیا اس لیے اس قسم کی باتیں کر رہے ہیں۔ ’ضرورت پڑی تو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات اپنے قوانین کے مطابق کریں گے۔‘
انہوں نے امریکی کانگریس کے بعض اراکین کے مبینہ دھاندلی کے الزامات کو ذاتی رائے قرار دیا اور کہا کہ وہ امریکی حکومت کی رائے نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر دھاندلی کسی نے کرنی ہوتی تو خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ فوج موجود تھی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔
انہوں نے 8 فروری کو انتخابات کے پرامن انعقاد پر سکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔ تاہم ملک میں موبائل سروس بند کرنے کی وجہ سکیورٹی الرٹس کو قرار دیا مگر ان الرٹس کی تفصیل بتانے سے گریز کیا۔
انہوں نے بظاہر الیکشن کمیشن کی انتخابات کے انعقاد کی کارکردگی پر براہ راست انڈپینڈنٹ اردو کے سوال میں جواب نہیں دیا لیکن اس کا دفاع ضرور کیا۔ ’2018 میں نتائج آنے میں 66 گھنٹے لگے تھے جس اس مرتبہ 36 گھنٹوں میں مکمل کیا گیا۔‘
اس بابت انہوں نے انڈونیشیا میں نتائج مرتب کرنے میں ایک ماہ کے وقت کی مثال بھی دی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا اصرار تھا کہ انتخابی عمل کو بہتر بنانے کے لیے نئی پارلیمان کو سوچ بچار رکنا چاہیے۔ انہوں نے صدر مملکت عارف علوی کے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کی افادیت سے متعلق بیان پر کہا کہ وہ بھی اس سے متفق ہیں لیکن یہ ان کی رائے ہوسکتی ہے فیصلہ نہیں۔ ’یہ ایک مناسب تجویز ہے اس بارے میں قانون سازی ہو اور ایسے اقدامات ضرور اٹھانے چاہییں۔‘
انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہ انتخابی عمل کے آغاز سے نگران حکومت ہر معماملے پر کہتی تھی کہ یہ الیکشن کمیشن کے دائرے اختیار میں ہے تو اب بھی اس کارکردگی کا دفاع نگران حکومت کی بجائے اس خودم،حار ادارے کو نہیں کرنا چاہیے تھا؟ ان کا کہنا تھا کہ پہلے کچھ نہیں ہوا تھا اور وہ انتخابی کمیشن کے ڈومین میں آتا ہے لیکن اب جب انتخابات ہوچکے ہیں تو اب نگران حکومت کا اخلاقی فرض ہے کہ اس کا دفاع کرے۔
نجکاری کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ آئی ایم ایف کو اس عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہے اور ان کی حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کے تمام مراحل مکمل کر دیئے ہیں۔ اس کے قرضہ جات کے لیے نیا ادارہ بھی بنا دیا گیا ہے۔
چیلنجز کے باوجود جمہوری عمل کا تسلسل خوش آئند ہے، غیر معمولی حالات کے باوجود پر امن الیکشن کا انعقاد بڑی کامیابی ہے۔
انوار الحق کاکڑ نے عام انتخابات کے نتائج سے ناخوش سیاسی کارکنوں سے کہا کہ پرامن احتجاج سب کا حق ہے لیکن تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔
’ملک بھر میں 92 ہزار پولنگ سٹیشنز تھے، نتائج آنے میں وقت لگتا ہے، یہاں تو صرف چند گھنٹوں بعد ہی کہہ دیا گیا کہ نتائج تبدیل ہوگئے ہیں، ہوسکتا ہے کہ کہیں نتائج میں بےقاعدگی ہو مگر نتائج میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ہے۔‘
انوار الحق کاکڑ نے انتہائی غصے میں کہا کہ پاکستان کو ڈھاکہ بنانے کی باتیں انتہائی بے ہودہ ہیں۔ ’ہم اپنے شہریوں کی زندگیوں پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔‘
ان کا اصرار تھا کہ ملک بھر میں براڈ بینڈ کے ذریعے انٹرنیٹ سہولت موجود تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں اپنے اعمال کو ایمان داری سےدیکھنا ہوگا۔ یہ نہیں ہوسکتا جو چیز مجھے موافق ہو وہ حلال ہو ورنہ وہ حرام ہے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہر اچھی بری خبر پر بغیر تحقیق یقین کر لیتے ہیں۔‘