کراچی شہر کا کوئی حلقہ ایسا نہیں جہاں عوام کہیں کہ انہیں بنیادی سہولیات میسر ہیں اور کسی بھی قسم کی کوئی پریشانی لاحق نہیں ہے ایسا ہی کراچی کا حلقہ این اے 231 ہے جہاں کے عوام بھی کئی مسائل کا شکار ہیں۔
آئیے عوام کے مسائل، ووٹرز کی تعداد پر ایک نظر دوڑاتے ہیں۔
این اے 231 میں کل ووٹرز کی تعداد
این اے 231 ضلع ملیر میں مرد ووٹرز کی تعداد ایک لاکھ 41 ہزار 814 ہے جبکہ خواتین ووٹرز 92 ہزار 802 ہیں، مجموعی طور پر اس حلقے میں 2 لاکھ 34 ہزار 616 ووٹرز موجود ہیں اور کل آبادی 8 لاکھ 23 ہزار 560 ہے۔
2018 میں کامیاب ہونے والے امیدوار
این اے 231 سے 2018 میں پیپلزپارٹی کے سید ایاز علی شاہ شیرازی نے ایک لاکھ 29 ہزار 980 ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کی تھی۔
متحدہ مجلس عمل کے مولوی محمد صالح الحداد ایک لاکھ 177 ووٹ حاصل کرکے دوسرے نمبر پر رہے تھے۔
2013 میں بھی اس حلقے سے پی پی نے میدان مارا
2013 کے الیکشن میں بھی اس حلقے سے پیپلزپارٹی نے ہی میدان مارا تھا، اور پی پی کے ملک اسد سکندر ایک لاکھ 28 ہزار 668 ووٹ حاصل کیے تھے۔
حلقے کے عوام کے مسائل
این اے 231 کی عوام بھی کئی مسائل کا شکار ہیں، کئی ایسے علاقے بھی اس حلقے میں شامل ہیں جہاں کے مکینوں کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ کھیلوں کے میدان بھی گندے پانی کے تالاب میں تبدیل ہو گئے ہیں۔
گیس بجلی اکثر غائب، پینے کا صاف پانی بھی موجود نہیں ہے۔
کراچی ضلع ملیر کے حلقہ این اے 231 کی کہانی، اس حلقہ میں گنجان شہری آبادیوں کے ساتھ اکثر ایسے علاقے بھی شامل ہیں جہاں سیوریج کا نظام درہم برہم ہے تو علاقے مکین ندیوں اور تالابوں سے پینے کا پانی حاصل کرنے پر مجبور ہیں۔
حلقے میں ایک طرف الیکشن جیتنے کے لیے کروڑوں روپے مالیت کے پوسٹر پرچم اور پینا فلیکس سے علاقے سجے ہوئے ہیں تو دوسری جانب کھیل کے میدان گندے پانی کے تالاب کا منظر پیش کر رہے ہیں۔
بنیادی سہولیات سے محروم لوگوں کی امید ہے کہ انتخابات میں منتخب نمائندے درد کا درماں بنیں۔
این اے 231 سے کس جماعت نے امیدوار کو میدان میں اتارا ہے؟
پیپلزپارٹی نے عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے اپنے نمائندے عبدالحکیم بلوچ کو چنا ہے، پی ٹی آئی کے خالد محمود علی اس حلقے سے الیکشن لڑیں گے، ن لیگ کے جمیل احمد بھی قومی اسمبلی کی نشست کے لیے کھڑے ہیں، جماعت اسلامی نے عمر فاروق الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ کے لیے عوام کے پاس جاتے وقت ان مسائل کا سامنا ضرور کرنا پڑے گا کیونکہ عوام اپنے مسائل حل کرنے والے امیدواروں کو ہی الیکشن میں کامیابی کروائیں گے۔