عمر صفدر پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ مختلف کاروبار کرتے ہیں اور معیشت کو بہتر انداز میں سمجھتے ہیں۔
ان کا لین دین زیادہ تر بینک میں ہوتا ہے۔ وہ اپنے کاروبار پر ٹیکس ادا کرتے ہیں اور سفید دھن کے ساتھ کاروبار کرنے کے حامی ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں کام کرنے والے لوگ کالے دھن سے کیش کاروبار کرتے ہیں اور زیادہ منافع کماتے ہیں۔
لہذا ان کا مطالبہ ہے کہ کالے دھن کو روکنے کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں۔
انہوں نے خبر پڑھی کہ سٹیٹ بینک نے پاکستان میں کرنسی نوٹوں میں نئے سکیورٹی فیکچرز کے ساتھ نوٹ تبدیل کرنے کا پروگرام ترتیب دیا ہے اور رواں سال مارچ تک نئے نوٹوں کا فریم ورک مکمل کرلیا جائے گا۔
یہ اہم اقدامات پاکستانی کرنسی کو محفوظ بنانے کے لیے کیے جا رہے ہیں، خصوصاً ملک میں جعلی کرنسی کی وجہ سے یہ فیصلہ کیا گیا ہے۔
عمر سوچنے لگے کہ کرنسی نوٹ تبدیل کرنے سے کیا کالا دھن رکھنے والوں کے گرد بھی گھیرا تنگ ہو سکے گا یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر اس فیصلے سے کالا دھن رکھنے والوں کی نشاندہی نہیں ہو سکتی تو اس سے معشیت کو مطلوبہ فائدہ حاصل ہونا ممکن نہیں ہے۔
اسی حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری ظفر پراچہ سے گفتگو کی، جن کا ماننا ہے کہ سٹیٹ بینک کے ان اقدامات سے کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ظفر پراچہ نے کہا کہ ’کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کا فائدہ ہو گا۔ اس سے کالا دھن رکھنے والوں کی نشاندہی تو شاید ممکن نہ ہو سکے لیکن کاروباری سرگرمیاں بڑھیں گی۔ جن کے پاس وائٹ منی ہے وہ تو بینک سے جا کر تبدیل کروا لیں گے لیکن جن کے پاس بلیک منی ہے ان کے لیے بینک جا کر کرنسی تبدیل کروانا مشکل ہو گا۔ ممکنہ طور پر یہ بلیک منی کاروبار، پراپرٹی اور انڈسٹری میں لگائی جا سکتی ہے۔ جس سے جی ڈی پی بڑھ سکتا ہے۔‘
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ظفر پراچہ نے تجویز دی کہ ’کالے دھن پر قابو پانے کے لیے ملک میں پانچ ہزار کے نوٹ پر فوراً پابندی لگائی جائے۔ پانچ ہزار کے نوٹ کی ڈی مونیٹائزیشن ہونی چاہیے اور یہ اسی وقت فائدہ مند ہے اگر اس میں زیادہ وقت نہ دیا جائے۔ گو کہ اس کے جی ڈی پی پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں لیکن بڑی بیماری سے بچنے کے لیے چھوٹے آپریشن کرنا پڑتے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’سٹیٹ بینک کے مطابق ملک میں اس وقت موجود سات ہزار 680 ارب روپے مالیت کے کرنسی نوٹ اور سکے گردش میں ہیں۔ پاکستان دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جہاں گردشی کرنسی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ اس قدر زیادہ کرنسی سرکولیشن کا نتیجہ افراطِ زر یعنی مہنگائی بڑھنے، رشوت اور کالے دھن میں اضافے کی صورت میں نکلتا ہے۔
’بلیک منی کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سٹیٹ بینک نوٹ تبدیل کروانے یا ڈی مونیٹائزیشن میں زیادہ وقت نہ لے۔ سٹیٹ بینک نے کہا ہے کہ دو سال کا وقت درکار ہو گا۔ میرے مطابق تو دو مہینے بھی کافی ہو سکتے ہیں۔‘
بقول ظفر پراچہ: ’کرنسی ڈی مونیٹائزیشن کے امکانات اس صورت میں بڑھ جاتے ہیں جب ملک دشمن قوتوں، بیرونی ایجنٹوں یا بعض اندرونی عناصر کی طرف سے جعلی نوٹ پھیلائے گئے ہوں۔ پاکستان میں کئی عشرے قبل اس وقت کا سب سے بڑا (سو روپے کا) کرنسی نوٹ واپس لینے کا اقدام کیا جا چکا ہے۔ سٹیٹ بینک کو یہ واضح کرنا چاہیے کہ اس وقت ملک میں کتنی مالیت کے جعلی نوٹ زیر گردش ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے کیا کیا جا رہا ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے کہا: ’اس وقت جعلی نوٹ بھی بڑا مسئلہ بن چکے ہیں۔ پہلے ہمارے کاؤنٹرز پر کئی سالوں میں جعلی کرنسی کے ایک دو کیسز آتے تھے، اب ایک ہفتے میں ایک کیس جعلی کرنسی کا آ ہی جاتا ہے۔
’جعلی کرنسی رکنے سے بھی معیشت بحال ہونے میں مدد ملے گی، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ نئے نوٹ پلاسٹک کرنسی کے نکالے جائیں۔ ایک تو ان کے جعلی نوٹ بنانا مشکل ہو گا اور دوسرا ان کی لائف بہت زیادہ ہوتی ہے۔ سٹیٹ بینک کو تین چار سال بعد پرانے کرنسی نوٹ تبدیل کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔‘
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم بھی سمجھتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کا یہ اقدام مثبت نتائج لا سکتا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’ملک میں اس وقت ایک ہزار اور پانچ ہزار کے جعلی نوٹ کثرت سے گردش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے سٹیٹ بینک نے یہ فیصلہ کیا ہے۔ اس کے مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔‘
انہوں نے انڈیا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا میں 2016 میں جو فیصلہ ہوا تھا وہ کرنسی ڈی مونیٹائزیشن کا تھا، جس میں 500 اور 1000 کے نوٹ بند کیے گئے تھے۔مئی 2023 میں 2000 کا نوٹ بھی بند کیا گیا تھا۔ پاکستان میں نوٹ بند نہیں ہو رہے بلکہ تبدیل ہو رہے ہیں، اس لیے انڈیا کا پاکستان سے موازنہ درست نہیں ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’پاکستان میں کرنسی نوٹ ختم کرنے سے کرپشن کم ہونا مشکل ہے بلکہ اس کے منفی اثرات زیادہ ہوں گے۔ حال ہی میں انڈیا سمیت تقریباً چار ممالک نے یہ تجربہ کر کے دیکھا ہے جس نے معشیت کو نقصان پہنچایا۔‘
ڈاکٹر فرخ سلیم کے مطابق: ’افغانستان میں پاکستانی پانچ ہزار روپے کے نوٹوں کے استعمال اور سٹاک کا دعویٰ بھی مناسب نہیں ہے۔ افغانستان کی 90 فیصد آبادی غریب ہے، پانچ ہزار کے نوٹ سٹاک کرنے سے اگر تھوڑے بہت ڈالر کی خریداری ہوتی ہے تو اس سے پاکستانی معیشت متاثر نہیں ہوتی۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کالا دھن سامنے لانا اور اس پر قابو پانے کے لیے لانگ ٹرم پالیسی کی ضرورت ہے۔ دنیا نے کئی سالوں کی محنت سے اس پر قابو پایا ہے۔‘
دوسری جانب سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کہتے ہیں کہ ’کالے دھن والوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے لیے نظام کو درست کیے جانے کی ضرورت ہے نہ کہ نوٹ کی۔‘
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’ٹیکس چوری کو روکنے، ڈیجیٹل ادائیگیوں کے نظام کو مضبوط کرنے اور اسے فروغ دینے سے بلیک اکانومی پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‘
ڈاکٹر حفیظ پاشا نے مزید کہا کہ ’نوٹ تبدیل کرنے کے لیے شناختی کارڈ کی شرط لگانا یا سورس پوچھنے کے لیے یہ مناسب وقت نہیں ہے، اس سے مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔‘
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔