ایک فرانسیسی صحافی نے کہا کہ انڈیا میں دو دہائیوں سے صحافت کرنے کے باوجود انڈین حکام نے ان کو ملک بدری کی دھمکی دی ہے اور ان کے کام کو ’بدنیتی پر مبنی اور تنقید سے بھرپور‘ قرار دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر کے مطابق یہ خبر تب سامنے آئی جب فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں جمعرات کو دو روزہ انڈیا کے دورے پر پہنچے۔
فرانسیسی صدر نے دورے کا آغاز جے پور سے کیا ہے جس کے بعد وہ دہلی پہنچے گے۔
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز (آر ایس ایف) نے جمعرات کو جاری ایک بیان میں انڈین حکام پر زور دیا ہے کہ وہ انہیں ملک بدر کرنے کے اپنے فیصلے پر نظرثانی کریں اور انڈیا میں موجود تمام غیرملکی صحافیوں کو بلاخوف و خطر رپورٹنگ کی اجازت دیں۔
2001 سے انڈیا میں مقیم وینیسا ڈوگنیک فرانسیسی زبان کے میڈیا جیسے کہ ہفتہ وار لی پوائنٹ اور اخبارات لی سوئیر اور لا کروکس کے لیے رپورٹنگ کر رہی ہیں۔
وینیسا ڈوگنیک کو انڈین وزارت داخلہ نے انہیں 18 جنوری کو مطلع کیا تھا کہ ان سے اوورسیز سٹیزن آف انڈیا (او سی آئی) کی حیثیت واپس لے لی جائے گی۔ انڈیا میں رہائش کی یہ سہولت ان غیرملکیوں کو دی جاتی ہے جو ڈوگنک کی طرح انڈین شہریوں کے شریک حیات ہیں۔ ان کے پاس اس فیصلے کو چیلنج کرنے کے لیے دو فروری تک کا وقت ہے، جسے نہ واپس لیے جانے کی صورت میں انہیں انڈیا چھوڑنا ہوگا۔
راجستھان میں جئے پور پہنچنے کے بعد میکروں کا ریڈ کارپٹ پر استقبال کیا گیا جس میں سجے ہوئے ہاتھیوں کی پریڈ بھی شامل تھی، جہاں وزیر اعظم نریندر مودی 19 ویں صدی کے مہاراجہ کے محل میں سرکاری ضیافت میں ان کی میزبانی کریں گے۔
آر ایس ایف کی جانب سے ڈوگنیک کو بھیجے گئے نوٹس میں ان پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ بدنیتی اور تنقیدی صحافتی سرگرمیاں کر رہی ہیں جن سے انڈیا کے بارے میں متعصبانہ منفی تاثر پیدا ہوتا ہے اور یہ ملک کی خودمختاری اور سالمیت اور عام لوگوں کے مفادات کے خلاف ہیں۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن آر ایس ایف کو پتہ چلا ہے کہ ڈوگنیک نے ستمبر 2022 کے بعد سے انڈیا میں کسی بھی رپورٹنگ سے گریز کیا ہے، جب انہیں بتایا گیا تھا کہ ورک پرمٹ کے لیے ان کی درخواست مسترد کردی گئی ہے۔ اس فیصلے کی تعمیل کرتے ہوئے ڈوگنیک نے اس کے بعد سے صرف ہمسایہ ممالک میں رپورٹنگ کی ہے۔
تنظیم کے جنوبی ایشیا ڈیسک نے کہا کہ اگر وینیسا ڈوگنیک جیسی پروفیشنل کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے تو کتنے غیر ملکی صحافی انڈیا میں کام جاری رکھ سکیں گے۔ ’ان کے خلاف لگائے گئے کسی بھی الزام کی حمایت نہیں کی گئی ہے۔ اگر فرانسیسی صدر کے سرکاری دورے کے دوران یہ خطرہ پیدا ہوتا ہے تو یہ انڈیا میں صحافت کے مستقبل کے لیے ایک خوفناک اشارہ دے گا۔ ہم حکام پر زور دیتے ہیں کہ وہ ملک بدری کی دھمکی پر عمل نہ کریں اور تمام غیر ملکی میڈیا نامہ نگاروں کو انڈیا میں آزادانہ طور پر کام کرنے کی اجازت دیں۔‘
آن لائن مہم
جب سے اطلاع دی گئی تھی کہ ڈوگنیک کو ممکنہ طور پر ملک بدر کیا جاسکتا ہے، تب سے وہ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے قریبی ٹرولز کے حملوں کا نشانہ بنی ہوئی ہیں، خاص طور پر ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر۔ نئی دہلی میں مقیم فنانشل ٹائمز ساؤتھ ایشیا بیورو کے سربراہ جان ریڈ کی جانب سے ڈوگنیک کی حمایت میں کی گئی ایک پوسٹ پر درجنوں افراد نے ردعمل کا اظہار کیا۔
ڈوگنیک کے بارے میں ہتک آمیز پوسٹس کو بی جے پی حامی ویب سائٹ ’اوپ انڈیا‘ پر ان کی بدنام پروفائل نے بھی ہوا دی تھی۔
تنظم کے مطابق ڈوگنیک کے خلاف لگائے گئے الزامات وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کی طرف سے بڑھتی ہوئی مطلق العنانیت کی علامت ہیں، جو آزاد میڈیا کو بدنام کرنا چاہتی ہے۔
’دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک میں پریس کی آزادی میں 2014 میں مودی کے وزیر اعظم بننے کے بعد سے مسلسل کمی آئی ہے۔ حکومت کا سب سے بڑا ہدف شمالی کشمیر کے آزاد ذرائع ابلاغ کے ادارے اور صحافی ہیں، لیکن غیر ملکی میڈیا کے لیے انڈیا میں مقیم صحافیوں کو نہیں بخشا جاتا۔‘