fbpx
خبریں

ممبئی: مذہبی جھڑپوں کے بعد مسلمانوں کی دکانیں منہدم

انڈیا کے کاروباری مرکز ممبئی شہر میں حکام نے مسلمانوں کی متعدد عارضی دکانیں مسمار کر دی ہیں۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ کارروائی رواں ہفتے وزیر اعظم نریندرمودی کی طرف سے ایودھیا میں رام مندر کے افتتاح کے بعد مذہبی بنیادوں پر ہونے والی جھڑپوں کے بعد کی گئی ہے۔

اتوار کو ممبئی کے کچھ حصوں میں معمولی جھڑپیں ہوئیں جن میں وہ واقعہ بھی شامل ہے جس ہندو مذہبی نعرے لگاتے ہوئے ممبئی جیسے بڑے شہر کے مضافات میں واقع مسلمان محلے سے گزرے۔

مقامی ذرائع ابلاغ کے مطابق جھڑپ میں کسی کے شدید زخمی ہونے کی اطلاع نہیں ہے لیکن منگل تک حکام نے ایکسکویٹر (کھدائی کے لیے استعمال ہونے والی مشین) لا کر اس علاقے میں مسلمانوں کی ایک درجن سے زیادہ دکانوں کا سامنے والا حصہ گرا دیا۔

اگلے روز شام کو محمد علی روڈ پر مزید 40 دکانوں کو منہدم کر دیا گیا۔ یہ سڑک شہر کی اہم شاہراہ اور مقامی مسلم تجارت کا مرکز ہے جہاں ہفتے کے آخر میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں۔

مقامی میونسپل افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’ہم اس سڑک کو صاف کیا جہاں کچھ عارضی دکانوں وغیرہ کو ہٹا دیا گیا۔‘

تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے بہت سے تاجر اکثر کاروبار اور خریداروں کو شہر کی تپتی دھوپ اور مون سون کی تیز بارشوں سے بچانے کے لیے کینوس اور لکڑی سے عارضی دکانیں بناتے ہیں۔

میونسپل حکام نے مقامی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ یہ مہم ’معمول‘ کی کارروائی تھی۔ اتوار کو ہونے والی جھڑپوں سے پہلے اس کی منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس کا مقصد تجاوزات کو ہٹانا اور پیدل چلنے والوں کی آمدورفت کو آسان بنانا تھا۔

’بلڈوزر انصاف‘

نام نہاد ’بلڈوزر انصاف‘ انڈیا میں مقامی حکام کا ایک عام آلہ بن چکا ہے جس کا مقصد مشتبہ مجرموں کو ان کی املاک کو مسمار کرکے سزا دینا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے اجتماعی سزا دینے کا غیر قانونی عمل قرار دیا ہے جو ملک کی مسلم اقلیت کو غیر متناسب طور پر نشانہ بناتا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کے آکر پٹیل نے ایک بیان میں کہا کہ ’ممبئی میں اس ہفتے کی مہم، مذہب کی بنیاد پر تشدد کے واقعات کے بعد مسلمانوں کی املاک کو من مانے اور تادیبی طور پر مسمار کرنے کی پالیسی کی نمائندگی کرتی ہے۔‘

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حالیہ برسوں میں مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت والی متعدد انڈین ریاستوں میں حکومت مخالف مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں لوگوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی مہم چلائی گئی۔

ان مہمات میں جن لوگوں کو نشانہ بنایا گیا ان میں سب سے زیادہ تعداد مسلمانوں کی ہے۔

انڈیا میں دیگر مقامات پر حکام کا کہنا ہے کہ انہدام قانونی عمل ہے کیوں کہ وہ صرف سرکاری منظوری کے بغیر کی گئی تعمیرات کو ہدف بناتے ہیں۔

متاثرین کے نزدیک یہ دعویٰ متنازع ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں انہدام کے احکامات سے پہلے قانونی نوٹس نہیں دیا جاتا تاکہ اسے چیلنج کیا جا سکے۔

اتوار کی جھڑپیں شمالی شہر ایودھیا میں بھگوان رام کے نئے ہندو مندر کے افتتاح کے موقع پر ہوئیں۔ مندر کے افتتاح کے بعد ممبئی میں جلوس نکال کر جشن بھی منایا گیا۔

رام مندر 1992 میں ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں منہدم کی گئی صدیوں پرانی مسجد کی جگہ پر تعمیر کیا گیا ہے۔

ماضی میں مسجد کو گرانا ایسا واقعہ ہے جو آزادی کے بعد انڈیا میں ایسے واقعات کا سبب بنا جس میں سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔

مقامی ذرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ ہفتے کے آخر میں ہونے والی جھڑپوں میں حصہ لینے پر کم از کم 13 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔




Source link

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے