نیدرلینڈز کے شہر دا ہیگ میں عالمی عدالت انصاف نے جب جنوبی افریقہ کی درخواست سے اسرائیل کے خلاف نسل کشی کے الزام کے حوالے سے عبوری حکمنامہ دیا تو عدالت کے باہر لوگ آج (جمعہ) فلسطین کے حمایتی خوشی بھی تھے اور غم زدہ بھی۔
عالمی عدالت انصاف جب ہنگامی اقدامات پر فیصلہ سنا رہی تھی تو عدالت کے باہر ایک بڑی سکرین پر پوری سماعت نشر کی جا رہی تھی جسے سن کر فلسطینی حمایتوں نے پہلے خوشی کا اظہار کیا اور پھر افسوس۔
عالمی عدالت انصاف نے اسرائیل کو غزہ میں نسل کشی روکنے، اس پر براہ راست اکسانے کا عمل روکنے اور اپنے اقدامات کے حوالے سے عدالت میں ایک ماہ میں رپورٹ جمع کروانے کا حکم دیا ہے۔
تاہم عدالت نے فلسطین میں جنگ بندی کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں سنایا جس کے باعث فلسطینی حمایتوں نے افسوس کا اظہار کیا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آج کی سماعت کو عالمی عدالت کے باہر بڑی سکرین پر نشر کیا گیا جسے دیکھنے کے لیے لوگ دنیا بھر سے آئے تھے۔ 11 اور 12 جنوری کو ہونے والی پچھلی دو سماعتوں کے برعکس آج کی سماعت میں عدالت کے باہر اسرائیلی حمایتی موجود نہیں تھے۔
پچھلی سماعتوں میں عدالت کے باہر دونوں گروپوں کی جانب سے احتجاج کیا گیا تھا جس کے باعث نیدرلینڈز کی حکومت نے سخت سکیورٹی انتظامات کیے ہوئے تھے جو کہ آج بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ تاہم آج ہر جگہ صرف فلسطینی جھنڈے ہی لہراتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
آج کا فیصلہ سننے کے لیے فلسطینی حمایتی اس قدر پرجوش تھے کے بڑی سکرین پر لائیو سٹریم میں جب بھی کسی قسم کا خلل آتا تو لوگ پریشان ہوجاتے اور ’فلسطین بچاؤ‘ کے نعرے بلند کرنے لگتے۔ اسی طرح کسی اچھی بات پر تالیاں گونج اٹھتیں تھیں۔
عدالت نے جب یہ اعلان کیا کہ جنوبی افریقہ کا کیس نسل کشی کنوینشن کی بنیادوں پر پوری طرح اترتا ہے تو فلسطین کے حامیوں میں خوشی اور امید کی لہر دوڑ گئی۔
ایک بزرگ خاتون جو بڑی سکرین کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑیں تھیں انہوں نے اطمینان کا سانس بھرا اور اپنے آنسو پونچھے۔ یورپی ممالک میں تنہا رہنے والے کئی بزرگوں طرح یہ خاتون بھی اس پورے مجمعے میں اکیلی ہی کھڑیں تھی۔ مگر جیسے ہی ان کی انکھوں سے آنسوں چھلکے تو چند لوگوں نے انہیں سینے سے لگا لیا اور فلسطین کی صورت حال بہتر ہونے کی امید دلائی۔
عدالت کے باہر موجود فلسطینی حمایتی اور احتجاجیوں میں صرف نیدرلینڈز کے رہاشی ہی نہیں بلکہ دیگر مملک کے لوگ بھی موجود تھے۔
امیریکی شہر واشنگٹن ڈی سی سے تعلق رکھنے والی نورین علی خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت افسوس کی بات ہے کہ تمام دنیا فلسطینیوں کی جانیں جاتے ہوئے دیکھ رہی ہے لیکن پھر بھی عدات نے جنگ بندی کا فیصلہ نہیں سنایا۔‘
عالمی عدالت انصاف کی طرف سے جاری کردہ فیصلے کے حوالے سے ہیومن رائٹس واچ میں بین الاقوامی انصاف کے ایسوسی ایٹ ڈائریکٹر، بالکیز جراح کا کہنا تھا کہ ’عالمی عدالت کا تاریخی فیصلہ اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کو اس بات کا نوٹس دیتا ہے کہ غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی اور مزید مظالم کو روکنے کے لیے فوری کارروائی کی ضرورت ہے۔‘
’حکومتوں کو فوری طور پر عالمی عدالت کے حکم کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ آئی سی جے کا فوری فیصلہ غزہ کی سنگین صورتحال کا اعتراف ہے، جہاں شہریوں کو فاقہ کشی کا سامنا ہے اور جہاں لوگ روزانہ کی بنیاد پر اس طرح مارے جا رہے ہیں کہ حالیہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔‘
پچھلی سماعتوں کی طرح اس بار بھی فلسطینی حمایتی کئی گھنٹوں تک عدالت کے باہر اپنا احتجاج ریکارڈ کرواتے رہے۔ تاہم عدالت کے فیصلے نے جہاں انہیں امید دلائی وہیں اسرائیل کی کی جانب سے اس فیصلے پر عملدرامد کرنے کے معاملے پر تشویش میں مبتلہ کردیا۔
اگر ماضی کی مثالیں دیکھیں تو 2020 میں میانمار کے خلاف گامبیا کے نسل کشی مقدمے اور 2022 میں روس کے خلاف یوکرین کی جانب سے دائر کردہ نسل کشی مقدمے میں کچھ اسی طرح کی صورت حال تھی۔
دونوں مقدموں کے حوالے سے عدالت نے تاحال کوئی حتمی فیصلہ نہیں سنایا ہے۔ میانمار اور روس نے عالمی عدالت کے ہنگامی اقدامات کو نظر اندا کرتے ہوئی روہنگیا مسلمانوں اور یوکرین کے رہائشیوں پر مظالم جاری رکھے۔
فلسطین اور اسرائیل کے مقدمے میں بھی عالمی عدالت اپنی تحقیقات جاری رکھے گی جس کے حوالے سے یہ کہنا مشکل ہے کہ عدالت اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کے نسل کشی کے الزامات پر حتمی فیصلہ کب سنائے گی۔
بوسنیا میں 1992 سے 1995 کے دوران جاری جنگ میں بوسنیا ہرزیگوینا نے سربیا اور مونٹی نیگرو کے خلاف عالمی عدالت میں نسل کشی کا مقدمہ دائرکیا تھا۔ اس مقدمے میں عدالت نے جنگ ختم ہونے کے 12 سال بعد 2008 میں اپنا فیصلہ سنایا تھا۔