لاہور کے حلقے این اے 119 کا شمار لاہور کے بڑے حلقوں میں ہوتا ہے، جسے پاکستان مسلم لیگ ن کا گڑھ بھی سمجھا جاتا ہے۔
انڈپینڈںٹ اردو نے الیکشن 2024 کے سلسلے میں اس حلقے کے دورے پر جتنے بھی لوگوں سے بات کی ان میں سے بیشتر نے مسلم لیگ ن کے حق میں ووٹ دینے کی بات کی جبکہ کچھ نے پی ٹی آئی کی حمایت کی ہے۔
الیکشن کمشن آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور کے حلقے این اے 119 کی آبادی نو لاکھ 16 ہزار 577 ہے جبکہ کل رجسٹرڈ ووٹر کی تعداد چار لاکھ 92 ہزار 454 ہے۔ اس حلقے میں پنجاب اسمبلی کی (پی پی 149 سے پی پی 152) پانچ نشستیں بھی شامل ہیں۔
اس حلقے سے قومی اسمبلی کی نشست کے لیے چار امیدواروں میں مقابلے ہے جن میں مسلم لیگ ن کی مریم نواز، پاکستان پیپلز پارٹی کے افتخار شاہد، جماعت اسلامی کے ذوالفقار علی اور پاکستان تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار شہزاد فاروق شامل ہیں۔
حلقے میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے حوالے سے ابہام پایا جاتا ہے۔ کچھ کے خیال میں خاتون رہنما صنم جاوید پی ٹی آئی کی امیدوار ہیں جبکہ دوسرے شہزاد فاروق کو ٹکٹ ہولڈر گردانتے ہیں۔
این اے 119 میں تحریک انصاف کا کہنا تھا کہ امیدوار جو بھی ہو انہوں نے ووٹ عمران خان کے نام پر دینا ہے۔
یہاں پاکستان تحریک انصاف کے حمایتی کچھ ڈرے سہمے بھی دکھائی دیے اور میڈیا سے بات کرنے سے کترا رہے تھے۔
حلقہ این اے 119، 2023 کی نئی حلقہ بندیوں کے بعد بنا اس سے پہلے 2018 کے عام انتخابات میں یہ این اے 127 تھا۔
این اے 119 کے اہم علاقوں میں لاہور کی شالیمار تحصیل اور انڈیا، پاکستان کی سرحد سے جڑے کچھ علاقے شامل ہیں۔
اس حلقے میں شامل اہم علاقوں میں سنگھ پورہ، چائنا سکیم، گجر پورہ، عالیہ ٹاؤن، محمود بوٹی، عثمان پورہ، داروغہ والا، ہربنس پورہ، اقبال پورہ شالیمار، باغبان پورہ اور چاہ بھنگیاں کالا برج وغیرہ شامل ہیں۔
2018 کے انتخابات میں اس حلقے سے مسلم لیگ نواز کے علی پرویز ملک ایک لاکھ 13 ہزار 273 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ دوسرے نمبر پر تحریک انصاف کے جمشید اقبال چیمہ تھے، جنہوں نے 66 ہزار 861 ووٹ حاصل کیے تھے۔
یہاں کے رہائشیوں کا سب سے بڑا مسئلہ گیس اور پانی کا میسر نہ ہونے کے علاوہ تجاوزات اور علاقے میں پھیلی گندگی ہے۔
یہاں کے کچھ رہائشی جو ہمیشہ سے ن لیگ کے حمایتی ہیں انہیں بھی جماعت سے علاقے میں کام نہ کرانے کی شکایت ہے۔
صحافی و سیاسی تجزیہ کار عاصم نصیر نے لاہور کے حلقے این اے 119 کے حوالے سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’لاہور کے 14 حلقوں میں سے این اے 119 مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس پر مشتمل ہے۔ یہاں مردوں اور خواتین ووٹرز کی تعداد تقریباً برابر ہے۔‘
’اس حلقے میں ووٹرز ٹرن آؤٹ وہ ہمیشہ مسلم لیگ ن کی طرف زیادہ دیکھا گیا ہے۔ مسلم لیگ ن اس حلقے سے جیتتی آئی ہے۔ اس حلقے سے اس وقت پی ایم ایل این کی امیدوار مریم نواز ہیں اور 2018 میں بھی مریم نواز نے اس حلقے سے انتخاب لڑنے کے لیے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے لیکن چوں کہ وہ عدالت کی جانب سے نااہل ہو گئیں تھیں اس لیے ان کی جگہ علی پرویز ملک کو کھڑا کیا گیا تھا۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’اس حلقے کی حلقہ بندیاں تبدیل ہوتی رہیں لیکن اس کے باوجود یہاں سے ن لیگ کے ووٹ بینک کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ یہ حلقہ ہمیشہ ن لیگ کا گڑھ رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ حلقہ این اے 119 ن لیگ کے لیے ایک تر نوالہ ہے جسے بہت آرام سے جیت لیا جائے گا کیوں کہ یہ ایک ایسی صورت حال جہاں حلقے میں آپ کے مد مقابل کسی اور سیاسی جماعت کا کوئی بڑا امیدوار ہی نہ ہو تو مریم نواز کے جیتنے کے امکانات قوی ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کا ووٹ بینک اس حلقے میں نہ ہونے کے برابر ہی ہے۔
عاصم نصیر کے خیال میں: ’مسلم لیگ ن جدید انداز اور دھڑے بندی کے طریقہ کار کے مطابق اس انتخاب میں حصہ لے رہی ہے اور مجھے یہاں سے واضع طور پر مریم نواز کی فتح دکھائی دے رہی ہے۔‘
اسی حلقے کے دورے کے دوران سنگھ پورہ کی تنگ گلی کے کونے پر ایک دکان پر’لیڈیز مال‘ کا بورڈ لگا ہوا دیکھا۔ باہر سے چھوٹی نظر آنےو الی یہ دکان اندر سے کافی کشادہ ہے۔ اس میں ایک بیوٹی سیلون قائم ہے اور خواتین کے کپڑے، میک اپ اور دیگر اشیا ضروریہ دستیاب ہیں جب کہ دو سلائی مشینیں زنانہ کپڑے بھی سیے جا رہے ہیں۔
’لیڈیز مال‘ سنگھ پورہ کی رہائشی شاہدہ عارف اپنی تین بیٹیوں کے ساتھ گذشتہ پانچ برس سے چلا رہی ہیں۔ ان کے خیال میں موجودہ دور میں گھر کے تمام افراد کو کام کرنا چاہیے بھلے خواتین ہوں یا مرد۔
سنگھ پورہ کا علاقہ قومی اسمبلی کے حلقے این اے 119 میں شامل ہے۔ شاہدہ کا گھر بھی اسی علاقے میں ہے۔
شاہدہ فروری کے عام انتخابات میں اس حلقے سے جیتنے والے امیدوار سےکچھ امیدیں لگائے بیٹھی ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے یہ تو نہیں بتایا کہ وہ کس سیاسی جماعت کے حق میں ووٹ استعمال کریں گی لیکن ان کا کہنا تھا: ’میں کسی جماعت کو برا نہیں کہتی سب اچھے ہیں بس یہاں سے جو بھی فتح پائے ان سے درخواست یہ ہے کہ وہ مہنگائی کو کم کرے۔‘
’لیڈیز مال‘ کی مالکہ شاہدہ کو ان کے علاقے میں ہر طرف پھیلی تجاوزات سے سب سے زیادہ مسئلہ درپیش ہے۔ ان سے نہ صرف ان کا کاروبار متاثر ہوتا ہے بلکہ کئی کئی گھنٹے ٹریفک جام کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔
شاہدہ نے بتایا کہ ان کے علاقے میں گیس بھی ناپید ہے۔
’سردیوں میں ہی سرسوں کا ساگ پکایا جاتا ہے، گاجر کا حلوہ، کڑی وغیرہ لیکن گیس کی وجہ سے ہم لوگ کھانے سے مجبور بیٹھے رہتے ہیں۔ دال روٹی ہی مشکل سے پک جائے تو بڑی بات ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ان کے پاس جو خواتین آتی ہیں ان کے ہاں دال روٹی بنانا بھی مشکل ہو گیا ہے اور یہ بجلی، گیس پانی کے زیادہ بلوں کے باعث ہو رہا ہے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔