fbpx
افسانہ و افسانچہ

کچھ لوگ پتھر پھینکنا جانتے ہیں / طاہرے گونیش

 

او دل آویز و کم آمیز ! کبھی تمہارا دل نہیں چاہتا ہے کہ وہ ہاتھ پتھرا جائیں جنہوں نے تمہارے چہرے پر تھپڑ مارے؟ ناعم پوچھ بیٹھا تھا۔
یگانہ نے مسکرا کر yeliz کے نغمے کی آواز کو آہستہ کرتے ہوئے اس کی جانب دیکھا، پھر اپنا جواب تولا:
چاہتا ہے ! بہت دل چاہتا ہے ۔میرا چہرہ میری پہچان ہے، اس پر کوئی ناپسندیدہ نگاہ ڈالے تو برا لگتا ہے ضرب تو پھر اور بات ہے۔
کہیں کنج میں پڑا آنسو رخسار پر ڈھلکنے کو بے تاب ہوا تو اسے منہ پھیرنا پڑا۔
پھر تم احتجاج یا انتقام کا سامان کیوں نہیں کرتی؟
کرتی تو ہوں۔
کیسے ؟
دیکھو خدا صرف ہمارا نہیں ہے ،ظالموں کا بھی ہے۔ وہ بھی کہیں مظلوم ہوتے ہیں ۔خدا عدل کا پابند ہے انتقام کا نہیں۔
تمہیں تو خدا تک سے بھی ہمدردی ہے ۔وہ کم حیثیت نہیں وہ رب تعالی ہے ۔اس کی قدرت میں بہت کچھ ہے۔
اس بہت کچھ کا مارجن ہم کو بھی ملا ہوتا ہے۔
شروع میں تو تم بہت روتی تھی ۔میرا دل چاہتا تھا تم احتجاج کرو، میں تمہارا ساتھ دیتا ۔
دیکھو! احتجاج کرنا آسان ہے ۔مگر یہ گزر گاہیں یہ شاہراہیں احتجاج کے لیے نہیں بنی ہیں، جن پر میں اور تم ذاتی غموں کے بینر لیے نکلیں اور چیخیں۔
تو کیا ان پر لگے پھولوں کو دیکھ کر بہل جائیں؟
ہاں وقتی طور پر تو !
مجھے لگا تھا تم ان کے منہ توڑ دو گی۔
میں نے بھی یہی سوچا تھا پھر مجھے لگا لفظ بھی تو پتھر ہوتے ہیں۔ میں اب لفظوں کے وار کروں گی۔
اور وہ جو تم نے کہا تھا کہ میرا دل چاہتا ہے کہ میری ہتھیلی کی ہڈیاں نکل کر سینے میں دل کی جگہ پیوست ہوجائیں اور میرا دل ہتھیلی پر آ جائے۔ شاید کوئی اس کے درد اور زخم دیکھ کر مجھے مزید دکھی نہ کرے۔
ہاں! میں ایسا سوچتی تھی مگر پھر میں شام کی چائے کے لیے خشک میوہ جات لینے یوسف عمجا کی دکان پر گئی ۔وہاں رکھے پستے باداموں نے میرا نظریہ بدل دیا۔
وہ کیسے؟
پستے کا منہ کھلا ہوا تھا اور بادام کا بند، پھر بھی دونوں برائے فروخت تھے ناعم!
کیا کھجور اور زیتون میں گھٹلیاں آنا بند ہوجائیں گی کسی مظلوم کی فریاد سے ؟ یا احتجاجا وہ ان کو ظالموں پر برسائے بھی تو کیا ہوگا؟ ضمیر یوں بیدار نہیں ہوتے۔
تو کیسے ہوتے ہیں ؟
کچھ لوگ پتھر پھینکنا جانتے ہیں،کچھ نظمیں لکھتے ہیں۔تم اس کا سہارا لینا،جو تمہاری طاقت ہے۔تمہارا ہنر،تمہاری تخلیق!
مگر میں تو مصور ہوں ۔
تم شہر کی دیواروں پر لکھے احتجاجی نعرے پھولوں میں بدل دو ،جن میں مہنگائی، ناانصافی اور منافرت کے نعرے سر فہرست ہیں۔
اور تم کیا کرو گی؟
کہا ناں! میں نظمیں لکھوں گی ۔

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے