fbpx
نظم

خوبانیوں کے درمیان / نیلما ناہید درانی

خوبانیوں کے درمیاں 

نیلما ناہید درانی 

کمرے کی کھڑکی سے باہر
خوبانی سے لدے درختوں
کے جھرمٹ ہیں
نارنجی خوبانیاں رس ٹپکا رہی ہیں
اور پہاڑ کی اس چوٹی پر
چاروں جانب پھول کھلے ہیں
جھرنوں کے پانی کی اک جھنکار رچی ہے
نیچے وادی سے کچھ بچے
روز یہاں پر آتے ہیں

اپنی اپنی جھولی میں خوبانیاں بھرتے رہتے ہیں
پھر وہ حیراں آنکھوں سے
میری جانب دیکھتے ہیں
اور اک دوجے کو کہتے ہیں

دیکھو اس کے کپڑے کتنے اجلے ہیں
دیکھو اس کی میز پہ اچھا کھانا ہے
دیکھو اس کے جوتے کیسے چمک رہے ہیں

لال گلابی گالوں والے
نیلی سندر آنکھوں والے
چھوٹے اجلے ہاتھوں والے
اور سنہری بالوں والے
پیارے بچے
کہساروں میں پلتے بچے
کیسے جانیں

ان کی فضائیں اور ہوائیں پاکیزہ ہیں
ان کے جھرنوں کے پانی میں شہد رچی ہے
ان کے درختوں پر خوبانی اور سیب سجے ہیں
اور سیاہ انگوروں سے ہر ڈال بھری ہے

میرا شہر تو آلودہ ہے
شہر کا پانی زہریلا ہے
اور ہوا میں بیماری ہے

میرے کپڑے اجلے ہیں پر
میرا من تو آلودہ ہے
مجھ میں نفرت اور کدورت
جیسا کتنا گند بھرا ہے

تم تو بہت ہی اجلے ہو
کیونکہ کہساروں کی پریاں
اب بھی سچ ہی کہتی ہیں
اب بھی سندر ہوتی ہیں
اب بھی سپنے لاتی ہیں
تم کو روز سلاتی ہیں

میری آنکھوں سے اب
سپنے چلے گئے ہیں
برسوں ہوئے اب نیند بھی
مجھ سے دور ہوئی ہے۔
میری آنکھیں سوکھ گئی ہیں
میرے شہر سے
سچ کی پریاں روٹھ گئی ہیں

رائے دیں

Back to top button
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے