fbpx
خبریں

چاند آہستہ آہستہ سکڑ اور ٹوٹ رہا ہے: نئی تحقیق

ایک نئی تحقیق کے مطابق چاند آہستہ آہستہ سکڑ رہا ہے جس کی وجہ سے تودے گرنے کی تعداد بڑھ رہی ہے جس سے مستقبل کے خلا بازوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

گذشتہ چند لاکھ سال میں زمین کے قدرتی سیارے کے قطر میں 100 میٹر سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے جب کہ اس کا اندرونی حصہ ٹھنڈا ہو گیا ہے۔

یونیورسٹی آف میری لینڈ کے محققین کا کہنا ہے کہ یہ بظاہر بتدریج ہونے والا عمل لگ سکتا ہے لیکن سکڑنے کی وجہ سے چاند کے جنوبی قطب کے کچھ حصوں میں سطح میں نمایاں تبدیلیاں ہو رہی ہیں جن میں خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے خلائی جہاز آرٹیمیس تھری کے اترنے کے لیے تجویز کردہ علاقے بھی شامل ہیں۔ آرٹیمس پر عملہ بھی سوار ہو گا۔

چوںکہ چاند کے سکڑنے کے ساتھ زلزلے بھی آتے ہیں اس لیے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ فالٹ زون کے قریب کے مقامات مستقبل کے انسانوں کے لیے خطرات پیدا کر سکتے ہیں۔

نیشنل ایئر اینڈ سپیس میوزیم سے تعلق رکھنے والے اس تحقیق کے شریک مصنف تھامس واٹرز کا کہنا ہے کہ ’چاند پر مستقل چوکیوں کے محل وقوع اور استحکام کی منصوبہ بندی کرتے وقت نئی فالٹ لائنوں کی تقسیم، ان کے فعال ہونے کی صلاحیت اور سکڑنے کے جاری عمل سے نئے فالٹ لائنیں پیدا ہونے کے امکانات پر غور کیا جانا چاہیے۔‘

نئی تحقیق میں محققین نے چاند کے جنوبی قطبی علاقے میں موجود فالٹ لائنوں کو 50 سال قبل خلائی جہاز اپالو میں نصب زلزلہ پیما آلات کے ریکارڈ کردہ سب سے طاقتور زلزلوں میں سے ایک کے ساتھ جوڑا ہے۔

محققین نے دریافت کیا کہ چاند کے جنوبی قطب کے کچھ علاقے خاص طور پر زلزلے کے جھٹکوں کے نتیجے میں پہاڑی تودے گرنے کے خطرے سے دوچار ہیں۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر آنے والے زلزلوں کی طرح چاند کے اندرونی حصے میں فالٹ لائنوں کی وجہ سے آنے والے زلزلے بھی اتنے طاقتور ہوسکتے ہیں کہ اس کی سطح پر انسان کے بنائے ساختوں اور آلات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔

لیکن زمینی زلزلوں کے برعکس جو صرف چند سیکنڈ تک جاری رہتے ہیں، چاند کے زلزلے گھنٹوں اور یہاں تک کہ پوری بعد از دوپہر رہ سکتے ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ یہ ہلکے زلزلے مستقبل کی انسانی بستیوں کو تباہ کرسکتے ہیں۔

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کی وجہ چاند کی سطح پر اربوں سال سے جاری سیارچوں اور دمدار ستاروں کے تصادم کے نتیجے میں اس کی سطح پر موجود مٹی کا نرم ہونا ہے۔

تحقیق کے ایک اور مصنف نکولس شیمر کا کہنا ہے کہ ’آپ چاند کی سطح کو خشک، بچھی ہوئی بجری اور دھول کے طور پر دیکھ سکتے ہیں۔ اربوں سال سے اس کی سطح سیارچوں اور دمدار ستاروں کی زد میں آتی رہی ہے۔ اس تصادم کے نتیجے میں نوکدار چٹانیں تسلسل کے ساتھ وجود میں آتی رہیں۔‘

’نتیجے کے طور پر سطح پر موجود متاثرہ مواد انتہائی چھوٹی جسامت سے لے کر پتھر جتنا ہوسکتا ہے لیکن یہ مواد بہت نرم ہے۔ مٹی کے نرم ہونے کی وجہ سے اس کا ہلنا اور پہاڑی تودے گرنا بہت ممکن ہے۔‘

امریکی خلائی ادارے ناسا کو امید ہے کہ وہ 2024 کے آخر میں آرٹیمس مشن کے حصے کے طور پر پانچ دہائیوں سے زیادہ عرصے میں چاند پر پہلا خلائی جہاز بھیجے گا جس میں عملہ موجود ہو گا۔

چاند کی سطح پر طویل عرصے کے لیے موجودگی کے منصوبوں کے پیش نظر محققین کو امید ہے کہ چاند کا مزید جائزہ لیا جائے گا تاکہ مزید ایسے مقامات کی نشاندہی کی جا سکے جو انسانی تحقیق کے دوران خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔

ڈاکٹر شیمر کا کہنا تھا کہ ’اس عمل سے ہمیں چاند پر موجود ان حالات کی تیاری میں مدد مل رہی ہے جو وہاں ہمارے منتظر ہیں۔ چاہے وہ انجنیئرنگ ساختیں ہوں جو چاند پر زلزلے کا بہتر طور پر مقابلہ کر سکتی ہیں یا لوگوں کو واقعی خطرناک حصوں میں جانے سے بچانا ہو۔‘




Source link

Facebook Comments

Related Articles

رائے دیں

Back to top button