fbpx
افسانہ و افسانچہ

افسانہ : آدھی موت / افسانہ نگار: صدف شاہد

افسانہ : آدھی موت / افسانہ نگار: صدف شاہد

رات کسی عذاب کی طرح نازل ہوتی ہے اور اپنا آپ کسی مجبور طوائف سا لگتا ہے جہاں ہر رات درر سے کراہنا پڑتا ہے، اپنے ضمیر کو نیند کی گولیاں دے کر سلا دیا جاتا ہے، اگر جاگ جائے تو اذیت گھنگھرو باندھے رقص کرتی ہے، کیا مصیبت ہے یہ آگہی، یہ بےموسم خیال، یہ الجھنیں، یہ یادیں ۔۔

اتنا طاقتور حافظہ ہونا صرف زلالت ہے، اور وہ کمرے میں ننگے پاؤں فرش پہ بیٹھے سوچ رہی تھی، بال ایسے بکھرے ہوئے جیسے زندگی جگہ جگہ دھتکارے جانے کے بعد بکھری ہوئی تھی، بےرنگ سی خواہشیں لالچ میں ملی ہوئی، جب لالچ کی پٹی آنکھوں سے کھلی تو زمین والے طوفانوں میں گھرے ہوئے تھے، اس نے چہرہ اوپر اٹھایا تو سرخ آنکھیں لال آندھی کی طرح اس کے بےرونق چہرے میں کھبی تھی، خالی آنکھیں جن میں آنسو کا ایک قطرہ تک نہ تھا، وہ چیخ چیخ کر رونا چاہتی تھی، ہر سال کی طرح اس پہ یہ رات عذاب کی طرح نازل ہوئی تھی

رات کے بارہ بج رہے تھے جب دروازہ زور زور سے کھٹکھٹایا جانے لگا وہ جانتی تھی اس وقت اس رات کون آیا ہوگا، اس کے برعکس وہ دروازہ کھولنے نہ گئی، جانتی تھی کہ دروازہ خود کھلے گا ،دروازہ کھٹکھٹانا تو اخلاقی عمل تھا اور اسے اخلاقیات پہ عبور تھا
وہ سفید چہرہ کمرے میں داخل ہوا تو چپ چاپ کھڑکی کے پاس کھڑا ہو کر نیچے دیکھنے لگا، بھلا اس اپارٹمنٹ میں رات کے بارہ بجے نیچے کون ہو سکتا تھا، اس شخص کے واہمے کبھی ختم نہیں ہو سکتے تھے،

“مجھے پتا تھا تم ضرور آؤ گے، ”
“باتیں کم کیا کرو ” اس نے جواب یوں تول کر دیا جیسے مہنگائی میں سبز دھنیا کے ساتھ مرچیں بھی پیسوں کی ملتی ہیں ۔۔
**************
چودہ جولائی 1999 کی رات وہ اس کے اپارٹمنٹ میں سفید لباس پہنے داخل ہوا، ہمیشہ کی طرح ہنستا مسکراتا لیکن جانے آج اس کی آنکھوں کی چمک کیوں شیطانی سی تھی، بچپن کی سردی گرمی کا ساتھی، دھوپ چھاؤں کا دوست، پچھلے آٹھ ماہ سے محبوب کا درجہ حاصل کر چکا تھا،رات کے دس بجے وہ ریڈیو لگائے لتا منگیشکر کی آواز میں “لگ جا گلے “مدھم روشنی میں میز پہ بیٹھی ڈائری لکھتے خود کو آنے والے اچھے دنوں کی نوید دیتے سن رہی تھی،

“آج آٹھ ماہ مکمل ہونے کو ہیں، پچھلے سال 14 جولائی کو وہ میرے ساتھ تھا لیکن نہیں جانتی تھی کہ دل اس قدر اس کا خواہشمند ہونے لگے گا کہ اب ہر رات جب ٹھنڈی ہوا چلتی ہے تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ آیا ہے، زندگی ہم جیسے کڑوے لوگوں کے لیے بھی شہد میں لپٹی محبت لائی ہے یقین نہیں آتا، زندگی نے پہلا اتنا حسین تحفہ مجھے دیا ہے میں جو کسی خدا پہ یقین نہیں رکھتی اب کس کا شکریہ ادا کروں،۔؟؟ زندگی کا، محبوب کا، یا اس پوری فلم کے پیچھے کہانی لکھنے والے کا…، کچھ تو ہے، خدا ہے تو سہی…، مگر مجھ سے کیوں پوشیدہ ہے۔۔ اس تک پہنچنے کا رستہ مجھے معلوم نہیں جس مندر، مسجد، کلیسا گئی سب نے اپنے اپنے رستے بتائے، کس کو چنوں کس کو چھوڑ دوں سب کے دلائل مضبوط ہیں، خیر خدا تو جہاں بھی ہے مجھے اپنا رستہ خود ہی بتا دے، اور ہاں تیرا شکریہ تو نے مجھے وہ انسان میسر کیا جس نے مجھے تیری طرف توجہ دلائی۔۔۔

وہ بہت کچھ لکھنا چاہتی تھی لیکن تبھی دروازے پہ دستک ہوئی، اسے اس دستک کی پہچان تھی ،معلوم تھا کہ وہ خود آ جائے گا، اس لیے “آ جاؤ” کی صدا لگا کر ڈائری بند کی اور میز پہ رکھی کتابوں کو ترتیب سے رکھنے لگی۔
وہ محبت کی چاہ میں پاس آیا اور اس کے سیاہ گھنگریالے بالوں میں انگلیاں چلا کر سلجھانے کی ناکام کوشش کرنے لگا، اس کی کمر پہ ہاتھ رکھے زور سے اپنی طرف کھینچا اور جہاں نامحرم مرد اور عورت اکیلے ہوں ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے، ان کے درمیان بھی شیطان آ گیا۔

وہ بہکا اور بہکتا ہی چلا گیا، اس کی کلائی کو زور سے مڑورا اور دیوار کے ساتھ اس کے بازو لگا کر گردن کے قریب ہونٹ لے کر آیا، وہ کانپی تھی جیسے کسی مچھلی کو پانی سے نکال صحرا بدر کردو وہ یوں تڑپی تھی
اس کا دوست، اس کا خدا پہ یقین، اس کی محبت، اس کی یادیں سب زمین بوس ہو گئے جیسے آسمان پہ لے جانے کی خواہش پہ آسمان پہ لے جایا گیا پھر چاند توڑ کر ماتھے کی ٹیکے میں جڑ دیا گیا لیکن پوری قوت کے ساتھ واپس زمین پہ پٹخ دیا، اس کے آنسو، اس کی آہیں، چیخیں ہونے والے لمحے کا ماتم منانے لگی، دیوار پہ لگی پینٹنگز نیچے گری اور ان کا فریم ٹوٹ گیا، ایک دم سے محبت اسے زہر لگنے لگی، وہ حسین چہرہ کانچ کی طرح آنکھوں میں چبھنے لگا، پورا زور لگا کر اسے دھکا دیا اور کھڑکی کھلی ہونے کی وجہ سے وہ نیچے گر گیا۔۔

محبت کی کہانی ختم ہوئی!
حواس باختہ فریم کے کانچ اس کے پاؤں زخمی کر گئے لیکن یہ پاؤں زندگی سے زیادہ تکلیف دہ نہیں تھے، آج اس کے سب رشتے ختم ہو گئے تھے، کس کس پہ آنسو بہاتی، پندرہ منٹ تک ڈرتی ڈرتی نیچے پہنچی تو وہ مر چکا تھا، اپنی کار کی پچھلی سیٹ پہ اسے لٹا کر کہیں دور ایسے دفنا آئی کہ کسی کو خبر ہی نہ لگی وہ حسین لڑکا کدھر گیا، پولیس بھی نہ آئی، پولیس آتی بھی کیسے جب دونوں ہی اس دنیا میں اکیلے تھے۔آتے ہوئے یوں لگا جیسے ٹھنڈی ہوا کے ساتھ اس کا وجود ابھی بھی اس کے ساتھ ہے، ٹھنڈے جسم کے ساتھ وہ خود کو گھسیٹتی اپارٹمنٹ لے آئی اور کمرے کا دروازہ بند کردیا، ڈائری کے صفحے نوچے، آگ لگائی، پینٹنگز توڑی، کی چینز، اس کی دی انگوٹھی، کارڈرز سب جلا دیے، سب توڑ پھوڑ دیا
********
“پیچھا کیوں نہیں چھوڑتے آخر میرا، ”
وہ جواب میں قہقہے لگاتا رہا…
“دفع ہو جاؤ، میری نظروں سے دور ہو جاؤ،سن رہے ہو نا۔۔۔؟
دفع ہو جاؤ ۔۔
مر ہی گئے ہو تو پھر مر کیوں نہیں جاتے، کیوں میری زندگی عذاب بنائی ہے۔۔؟، جینے دو مجھے… ”
پھر ایک قہقہہ
جیسے کسی کی میت پہ کوئی قہقہے لگائے، اتنا برا قہقہہ
بدشکل آدمی ہنس کیوں رہے ہو، نکلو یہاں سے، نکلو،
اس نے ہاتھ سے اسے دھکا دینے کی کوشش کی۔۔۔
“گھٹیا انسان، چلے جاؤ یہاں سے، تم نے ریپ کیا ہے میرے یقین کا”
وہ یوں نم آنکھوں سے پاگلوں کی طرح چلائی جیسے ہولی وڈ کی کوئی فلمی ہیروئین سٹیج پہ جھکاس اداکاری کر رہی ہو۔
“اب یہاں سے کچھ نہیں ملنے والا، چلے جاؤ، ورنہ میں پولیس کو بلا لوں گی، چلے جاؤ ”
کہنے کے ساتھ ہی میز پہ پڑا پانی کا گلاس اٹھا کر زور سے اس کی سمت اچھالا مگر وہ دیوار سے ٹکرا کر ٹوٹ گیا، وہ سامنے کھڑا متواتر ہنستا رہا
تبھی اچانک سے دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور دروازہ کھول کر کوئی اندر آیا اور پھر ڈر کے مارے باہر کو بھاگ گیا،
“ڈاکٹر فضا، ڈاکٹر۔۔۔۔ وہ بیڈ نمبر سات کی پیشینٹ ہما کو پھر سے دورہ پڑا ہے، “

Facebook Comments

رائے دیں

Back to top button
نوٹیفیکیشن فعال کریں OK No thanks
Close

Adblock Detected

برائے مہربانی ایڈ بلاکر ختم کیجئے