کربلا: حق و باطل کی ابدی جنگ / شاہد گجر

کربلا کا واقعہ تاریخ کا ایک لمحہ نہیں بلکہ ایک مسلسل پیغام ہے۔ 10 محرم 61 ہجری کو امام حسینؑ اور ان کے ساتھیوں نے جو قربانی پیش کی، وہ صرف اس وقت کے یزیدی نظام کے خلاف نہیں تھی، بلکہ ہر دور کے ظالموں کے خلاف تھی۔ یہ معرکہ دراصل حق و باطل کی وہ جنگ ہے جو حضرت آدمؑ سے شروع ہوئی اور قیامت تک جاری رہے گی۔ کربلا ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سچائی کے لیے قربانی دینا پڑتی ہے، اور باطل کے آگے جھکنے کا مطلب صرف وقتی بچاؤ ہوتا ہے، اصل کامیابی نہیں۔
امام حسینؑ نے یزید کی بیعت سے انکار کر کے اسلام کی روح کو بچایا۔ وہ جانتے تھے کہ اگر وہ خاموش رہ گئے تو دین کے نام پر حکومت کرنے والے جھوٹے، ظالم، اور خودغرض لوگ اسلام کی بنیادوں کو مٹا دیں گے۔ اسی لیے انہوں نے بیعت کے بجائے قربانی کو ترجیح دی۔ اُن کی یہ جدوجہد ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سچ کا ساتھ دینا، اصولوں پر قائم رہنا، اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونا ایک مؤمن کی پہچان ہے۔
کربلا نے ہمیں یہ سبق دیا کہ تعداد کی نہیں، نظریے کی فتح ہوتی ہے۔ امام حسینؑ کے پاس 72 ساتھی تھے، اور دشمن ہزاروں میں تھا، لیکن پھر بھی کامیابی کا پرچم حسینؑ کے ہاتھ میں آیا۔ کیونکہ وہ حق پر تھے، اور حق کبھی شکست نہیں کھاتا۔ اُنہوں نے دنیا کو دکھا دیا کہ باطل کتنا ہی طاقتور ہو، اگر تم سچ پر ڈٹ جاؤ، تو تاریخ تمہیں فاتح لکھتی ہے۔
یہ جنگ صرف اُس وقت کے لیے نہیں تھی، بلکہ آج بھی جاری ہے۔ آج بھی ظلم ہے، ناانصافی ہے، طاقتور کمزوروں کو کچل رہے ہیں۔ لیکن ہر دور میں کچھ لوگ حسینی فکر کے ساتھ اٹھتے ہیں۔ وہ حق کی بات کرتے ہیں، مظلوموں کا ساتھ دیتے ہیں، اور یزیدی سوچ کو بےنقاب کرتے ہیں۔ اس لیے کربلا ایک میدان نہیں، ایک نظریہ ہے — جو ہر دل میں برپا ہو سکتا ہے۔
خاموشی اکثر باطل کو طاقت دیتی ہے۔ اگر امام حسینؑ خاموش ہو جاتے تو یزید کو جواز مل جاتا۔ مگر حسینؑ نے کہا: “مجھ جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔” یہ جملہ ایک اصول ہے — کہ حق اور باطل کے درمیان کوئی مفاہمت نہیں ہو سکتی۔ یا تو تم حق کے ساتھ ہو، یا خاموشی اختیار کر کے باطل کے ساتھ۔
آج ہمیں یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم کس طرف کھڑے ہیں؟ کیا ہم ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں؟ کیا ہم حق کا ساتھ دیتے ہیں، یا اپنے مفاد کی خاطر خاموش رہتے ہیں؟ کربلا ہمیں سوال کرتی ہے، اور ہمارے عمل ہی ہمارے جواب ہوتے ہیں۔
کربلا ہمیں بیداری کا پیغام دیتی ہے۔ یہ واقعہ ہمیں صرف آنسو بہانے کے لیے نہیں، بلکہ سوچنے، سمجھنے اور خود کو بدلنے کے لیے ملا ہے۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ ہم اپنے گھروں، معاشروں، اداروں، اور قوموں میں کس حد تک حسینی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اور اگر نہیں کر رہے، تو کب کریں گے؟