امام حسین ؑ : آئینہ ٔ سیرت مصطفی ﷺ/ جویریہ اعجاز۔۔۔۔ہست و بود

کچھ واقعات وقت کی قید سے نکل کر ایسی دائمی حیثیت اختیار کر لیتے ہیں کہ وہ تاریخ کے حاشیے پر نہیں، اس کے مرکز میں لکھے جاتے ہیں۔ پھر وہ محض حوالے نہیں رہتے، بلکہ تاریخ کا رخ بدلنے والے عنوان بن جاتے ہیں۔کربلا محض ایک تاریخی واقعہ یا وقتی سانحہ نہیں ہے بلکہ وہ زندہ لمحہ ہے جو تاریخ کے سینے میں دھڑکتا ہے۔ ایک ایسی مسلسل صدا ہے جو آج بھی سچ کی پکار اور مظلوم کی فریاد میں سنائی دیتی ہے۔ مجید امجد نے کہاتھا
سلام ان پہ تہ تیغ بھی جنہوں نے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تو چاہے
امام حسینؑ کا سفرِ کربلا بندگی کی معراج ہے۔ اطاعتِ کامل کی ایسی انوکھی داستان جو کربلا کے 72 شہدا نے اپنے خون سے رقم کی۔ انہیں نہ تخت کی چاہت تھی اور نہ ہی کسی سلطنت کی آرزو۔وہ عدل و صداقت کے چراغ تلے اصول اور ضمیر کے راستے پر گامزن تھے۔ اور اْن کی نگاہ میں صرف وہ راستہ تھا جو رب کی رضا تک جاتا تھا۔ کربلا میں امامِ عالی مقام کا کردار محض قربانی نہیں بلکہ دین کے بنیادی اصولوں کا جیتا جاگتا نمونہ ہے جس کی روح اخلاق ہے اور جس کا حاصل انسانیت ہے۔۔۔ توحید و رسالت پر ان کے مضبوط ایمان نے یہ واضح کیا کہ سچا مؤحد دنیاوی طاقت کے سامنے دین پر سودے بازی نہیں کرتا۔ میدان کربلا کے قیامت خیز لمحات میں نماز، دعا، اور ذکرِ خدا کا اہتمام عشقِ ازل کا وہ مکالمہ تھا جو رب سے عہد کرنے والے سچے عاشق کی زبان پر جاری رہا : جو تو چاہے، جو تیری رضا۔
امام حسین علیہ السلام کا کردار سیرتِ نبویؐ کا آئینہ اور پیغامِ رسالت کا امین ہے۔ یہیں جہاد فی سبیل اللہ کی اعلیٰ ترین عملی مثال قائم ہوئی جس کی بنیاد امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہے۔
رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا جوہر اخلاق ہے، اور امام حسین علیہ السلام نے کربلا میں اسی اخلاقی ورثے کو اپنے لہو سے زندہ کر دیا۔ کربلا، اخلاقی عظمت اور کردار کی بلندی کی ایک مکمل درسگاہ ہے۔ یہاں وفا، صبر، اصول پسندی، حوصلہ، دیانت، اور سچائی اپنی بلند ترین صورت میں نظر آتی ہے۔
امامِ عالی مقام کی اپنے مقصد سے غیرمتزلزل وابستگی نے بھوک، پیاس اور مصیبت کے عالم میں کربلا کو صبر و استقامت کا مظہر بنا دیا۔ان کے جانثار رفقا نے بھی وفا اور عہد کی پاسداری میں موت کو گلے لگانا آسان سمجھا، مگر امام کا ساتھ چھوڑنا گوارا نہ کیا۔
کربلا کا پیغام نہ کسی ایک مذہب یا مسلک تک محدود ہے، نہ کسی خاص زمانے تک … یہ ایک فکری علامت ہے، جو انسانی عظمت، وقار کی جدوجہد، اور حق و حریت کے ابدی استعارے کے طور پر ہر دور کے ضمیر کو بیدار کرتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام نے یزید کی بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا:’’ مثلی لا یبایع لمثلہ’’مجھ جیسا اْس جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا۔
یہ جملہ فقط انکار نہیں، بلکہ ایک تاریخی اعلامیہ ہے جو ہر عہد کے ظالم کے سامنے حق کی بلند آواز بن کر ابھرتا ہے۔ یہ یاد دہانی ہے کہ ظلم کے سامنے خاموشی، انسانیت کے شایانِ شان نہیں۔
اس کا تعلق کربلا کے اْسی مقامِ تسلیم و رضا سے ہے، جو امام حسین علیہ السلام اور ان کے جانثاروں نے میدانِ کربلا میں اختیار کیا۔ یعنی اللہ کے حکم، رضا اور مشیت کو مرکز بنایا گیا۔ عبودیت، تسلیم، قربانی اور اصول پسندی کے روحانی مدارج کی سب سے کامل اور مجسم تصویر کربلا میں نظر آتی ہے۔
امام حسین علیہ السلام سے منسوب آخری مناجات میں شامل یہ جملہ نہ صرف ایک دعا ہے بلکہ بندگی کا کامل مفہوم بھی ہے۔ (اے میرے رب! میں تیرے فیصلے پر صبر کرتا ہوں؛ تیرے سوا کوئی معبود نہیں؛ اے فریاد کرنے والوں کے مددگار!)
امام حسین علیہ السلام کی رضا، تسلیم کی انتہا اور محبتِ الٰہی کی معراج تھی۔
کربلا نے سکھایا کہ اطاعت صرف عبادت تک محدود نہیں، سچائی محض زبانی دعویٰ نہیں، اور اصول وہ نہیں جو صرف کتابوں کی زینت ہوں۔کربلا کا فلسفہ بظاہر سادہ ہے: حق کے لیے کھڑے ہونا، ظلم کے آگے نہ جھکنا، اور دین کی اصل روح کو بچانا مگر اس کے لیے جو حکمتِ عملی اپنائی گئی، وہ محض احتجاج یا مزاحمت نہیں تھی، بلکہ یہ ایک ایسا شعوری انکار تھا جو باطن میں معاشرے کی روحانی گراوٹ اور اجتماعی ضمیر کی موت کے خلاف بیداری کا اعلان تھا۔ یہی وجہ ہے کہ معرکہ کربلا میں جذبات، اعمال، اور پیش کی جانے والی ہر قربانی ایک آفاقی معیار میں ڈھل کر انسانیت کے لیے ابدی مثال بن گئی۔
بقول غالب
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبر راہ خدا کہیں اس کو
فروغ جوہر ایماں حسین ابن علی
کہ شمع انجمن کبریا کہیں اس کو
بہت ہے پایہ گرد رہ حسین بلند
بقدر فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو
٭…٭…٭