کراچی: رہائشی عمارت گرنے سے 16 افراد جان سے گئے، نو زخمی/ اردو ورثہ

کراچی کے علاقے لیاری میں واقع بغدادی محلے میں جمعے کی صبح گرنے والی پانچ منزلہ رہائشی عمارت کے ملبے سے لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا کام جاری ہے اور ریسکیو حکام کے مطابق اب تک 16 افراد کی موت ہوئی ہے جبکہ نو زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے۔
سندھ ایمرجنسی ریسکیو سروسز 1122 کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر عابد جلال الدین شیخ نے بتایا کہ ’ہفتے کی صبح تک ملبے سے 15 لاشیں نکالی جا چکی تھیں جبکہ ایک خاتون دوران علاج دم توڑ گئیں۔‘
یہ عمارت لیاری کے آٹھ چوک پر واقع تھی اور جمعے کی صبح تقریباً ساڑھے 10 بجے زمین بوس ہو گئی۔
عمارت میں 12 خاندان آباد تھے اور حادثے کے وقت 20 سے 22 افراد عمارت میں موجود ہونے کا امکان ہے، تاہم حتمی تعداد معلوم نہیں ہو سکی۔
ایدھی کنٹرول روم کے رضاکار معین الدین نے بتایا کہ عمارت کی ہر منزل پر تین فلیٹس تھے۔ ’عمارت گرنے سے قبل کچھ رہائشی افراد یہاں سے اس لیے چلے گئے تھے کیونکہ کچھ حصوں کا پلاسٹر گرنے لگا تھا اور جھٹکے محسوس ہو رہے تھے۔‘
حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں ایک رہائشی نے شکایت کی کہ ریسکیو کی گاڑیاں وقت پر نہیں پہنچیں۔
اس حوالے سے معین الدین کا کہنا تھا کہ محرم کے جلوسوں کی سکیورٹی کے سبب شہر کے کئی علاقوں میں موبائل نیٹ ورک بند تھا، جس کے باعث بروقت اطلاع نہ دی جا سکی۔
ڈاکٹر عابد جلال کے مطابق ریسکیو آپریشن میں لائف لوکیٹر اور لسننگ ڈیوائسز کی مدد سے کچھ لاشیں اور زخمیوں کو تلاش کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ جب ملبے تلے کسی فرد کی موجودگی کا پتہ چلتا ہے تو خصوصی پروٹوکول کے تحت ملبہ ہٹایا جاتا ہے، یہی وجہ ہے کہ کام میں تاخیر ہو رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اب تک عمارت کا 65 فیصد ملبہ ہٹا دیا گیا ہے اور ریسکیو آپریشن تاحال جاری ہے۔
عمارت ’انتہائی خطرناک‘ قرار دی جا چکی تھی
وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے عمارت گرنے کے واقعے کی تحقیقات کے لیے ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کرنے کا اعلان کیا ہے، جو تین روز میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی۔
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے مطابق سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) کے متعلقہ افسران کو معطل کر دیا گیا ہے۔
سعید غنی نے بتایا کہ 10 اکتوبر، 2022 کو ہونے والے ایک سروے میں اس عمارت کو ’انتہائی خطرناک‘ قرار دیا گیا تھا اور دو جون، 2023 کو پہلا نوٹس جاری کیا گیا۔
اس کے بعد مزید چار نوٹس دیے گئے، لیکن مکینوں نے عمارت خالی نہیں کی۔
’جب SBCA کا عملہ عمارت خالی کروانے پہنچا تو مکینوں نے مزاحمت کی اور ہاتھا پائی تک کی گئی۔ یہ کہنا کہ نوٹس نہیں دیے گئے حقائق کے برخلاف ہے۔‘
انہوں نے انکشاف کیا کہ کراچی میں اس وقت 588 خطرناک قرار دی گئی عمارتیں موجود ہیں، جن میں سے صرف لیاری کوارٹرز میں 107 ہیں، جن میں 51 ’خطرناک‘ اور 22 ’انتہائی خطرناک‘ ہیں۔
متاثرہ عمارت کے رہائشی رمیش کمار کا کہنا ہے کہ سرکاری ادارے صرف نوٹس دے دیتے ہیں لیکن رہائشیوں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ وہ متبادل کے طور پر کہاں جائیں۔
’کون اپنے بچوں کے ساتھ خطرناک عمارت میں رہنا چاہے گا؟ مگر ہم مجبور ہیں، نیا گھر بنانا یا کرایے پر لینا ممکن نہیں۔ اگر حکومت ہمیں متبادل گھر مہیا کرے تو ہم خوشی سے عمارتیں خالی کر دیں گے۔‘