سندھ میں ڈاکو راج عوام پھر سے یرغمال / شوکت لاشاری۔۔۔نواب شاہ

سندھ کی سرزمین آج ایک بار پھر دہشت، خوف اور ڈاکو راج کی لپیٹ میں آچکی ہے۔ وہی سندھ جو کل تک صوفیائے کرام کے امن، رواداری اور محبت کے گہوارے کے طور پر پہچانا جاتا تھا، آج بندوقوں کے سایے، مغویوں کی چیخوں، اور تاوان کے مطالبوں کی گونج میں ڈوبا ہوا ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں جس منظم انداز سے یہ ڈاکو گروہ دوبارہ ابھرے اور منظم ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں، وہ صرف ایک سماجی المیہ نہیں بلکہ قومی سلامتی کا چبھتا ہوا سوال تو بن ہی چکا ہے وہیں یہ ڈاکو راج ریاست کی رٹ کو سرعام اور دیدہ دلیری سے بغیر کسی خوف کے چیلنج کرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے ، آئے روز سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں مغویوں کو فائر مارنے کی دھمکیاں، لاٹھیوں سے پیٹنے کے مناظر اور سسکتے چہرے نہ صرف انسانیت کی توہین ہیں، بلکہ ریاستی اداروں کے منہ پر طمانچہ بھی ہیں ، حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہ مناظر پوری دنیا دیکھ رہی ہے، تو کیا ریاستی ادارے اور سیکیورٹی ایجنسیاں یہ ویڈیوز نہیں دیکھ رہی ہوں گی ؟ یا یہ سب کچھ اْن کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور وہ فقط خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں؟
قانون صرف کتابوں میں نہیں ہوتا بلکہ زمین پر نافذ ہونے کا تقاضا بھی کرتا ہے۔ اور اگر چند درجن ڈاکو ریاست کی رٹ کو سرعام للکارنے میں کامیاب ہو جائیں، تو سوال ریاست کے وجود پر اْٹھنے لگتے ہیں ، یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ سندھ کی عوام ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر رہی ہو۔ ماضی میں بھی جب اندازاً 90 کی دہائی میں ن لیگ کی حکومت نے سندھ کے بگڑتے ہوئے حالات کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے فوجی آپریشن کا آغاز کیا، تو سندھ کے لوگوں نے پہلی بار ریاست کی اصل طاقت دیکھی۔ شاہراہیں محفوظ ہوئیں، اغوا برائے تاوان کا دھندا بند ہوا، اور امن بحال ہوا۔ آج وہی مسلم لیگ (ن) وفاق میں حکومت میں ہے، مگر اْس قیادت کا فقدان ہے جو ریاستی عملداری کے لیے بے رحم فیصلے لینے سے نہیں کتراتی تھی ، آج کا ڈاکو صرف کچے کے جنگلوں تک محدود نہیں، وہ ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا، اور جدید اسلحے سے لیس ہے۔ یہ گروہ صرف اغوا نہیں کرتے، بلکہ اپنے جرائم کی ویڈیوز بطور پیغام نشر کرتے ہیں – کہ ریاست کمزور ہے، اور ہم طاقتور ، کیا یہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ناکامی ہے؟ یا اس کے پیچھے ایک مکمل سہولت کاری کا نظام ہے – سیاستدانوں، افسران اور اثرورسوخ رکھنے والے عناصر پر مشتمل ایسا نیٹ ورک جو اِن جرائم پیشہ عناصر کو نہ صرف تحفظ دیتا ہے بلکہ ان کے لیے راہ ہموار بھی کرتا ہے۔
فیصلے اور ڈاکو راج کے خلاف سخت ترین ایکشن لینے کا وقت آ چکا ہے کہ حکومتِ وقت، سیکیورٹی ادارے اور عدلیہ مل کر ایک فیصلہ کن اور بھرپور ریاستی آپریشن کا آغاز کریں۔ ایک ایسا آپریشن جو صرف ڈاکوؤں کو نیست و نابود نہ کرے، بلکہ اْن کے مالی، سیاسی اور ادارہ جاتی سرپرستوں کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر عوام کو محسوس کروائیں کہ وہ محفوظ ہیں اور حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے عناصر کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا جانتے ہیں ۔
آج سندھ کے عوام، خصوصاً ڈاکو زدہ علاقوں کے باسی اور مغوی شہریوں کے ورثاء ریاست سے صرف ایک سوال کر رہے ہیں: کیا ہمیں بھی پاکستانی شہری سمجھا جائے گا؟ کیا ہمارا تحفظ بھی ریاست کی ذمہ داری ہے؟ یا ہمیں ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے گا؟ اگر آج یہ سوالات سننے والے کان نہ ملے، تو کل تاریخ صرف ان ڈاکوؤں کو مجرم نہیں ٹھہرائے گی، بلکہ ان خاموش ریاستی اداروں اور بے حس حکومتوں کو بھی کٹہرے میں کھڑا کرے گی جنہوں نے تمام تر وسائل ہونے کے باوجود ان سفاک ڈاکوؤں کے خلاف کارروائی کرنے سے گریزاں نظر آتے رہے ، بدامنی کی بھینٹ چڑھی ہوئی عوام ریاست کے اندر ریاست بنا کر لوگوں کو یرغمال بناکر بیٹھے ہوئے ڈاکوؤں کے خلاف مؤثر کارروائی ہونے کی آس لگائے ریاست کی طرف دیکھ رہی ہے کہ ہماری ریاست کب جاگے گی؟ کب وہ ایک اور ضربِ عضب، ایک اور نیشنل ایکشن پلان، سندھ کے لیے شروع کرے گی؟ اور سندھ سے ڈاکو انڈسٹری کا خاتمہ ہوگا اور دنیا حکومتی رٹ کو بحال ہوتے ہوئے دیکھے گی۔