ترجمہ شاعری

کل کی روٹی، شاعر: لیو بو میر لیو چیف (بلغاریہ)

اردو ترجمہ : زینت حسام

کل کی روٹی

شاعر: لیو بو میر لیو چیف (بلغاریہ)

ایک بار میں نے

اپنے بیٹے کو ڈانٹا

کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا

کہ اسے روٹی کہاں سے خریدنی ہے

اور اب ۔۔۔

وہ روٹی بیچتا ہے

امریکہ میں

واشنگٹن میں

دن میں

وہ پڑھاتا ہے ایک یونیورسٹی میں

رات میں شاعری کرتا ہے

لیکن ہفتہ اور اتوار

وہ روٹیاں بیچتا ہے

نبراسکا اور کنیٹی کٹ کے نکڑ پہ

 

بلغاریہ کے کھیت خالی ہیں

زمین کی وہ عورتیں

جو فصل کاٹ کر

نسلوں کا پیٹ بھرا کرتی تھیں،

معدوم ہوتی جاتی ہیں

ایک دم توڑتے ہوے نغمے کے سُروں کی مانند

سیاست دانوں نے ایک جذباتی ڈراما کھڑا کیا ہے:

"مادرِ وطن کا گندم کس نے اڑالیا؟”

لیکن روٹی اور انسان کے درمیان جو کچھ ہے

مخفی ہے کئی ناموں کے پیچھے

مختلف ذائقوں اور مختلف داموں میں

 

میرا بیٹا بیچتا ہے سینڈوچ کے لیے،

اکیل کوہستانی بن، زیتونی رول،

زاہتر ڈبل روٹی، ہسپانوی تل دار گیہوں کی سِویاں

اخروٹ کی روٹی، گندم کی روٹی، کشمشوں والی،

ہلکے خمیرکی اطالوی خوبصورت، گول ‘پانے بیلو’

سادہ، دیہی ‘پلادین’ زیتون کے تیل میں گندھی ہوئی، خمیر اور دودھ کے ساتھ،

مکئی کی روٹی، لوکی کے بیجوں والی روٹی،

ترکی روٹی، بادلوں سے بنی روٹی ۔۔۔

صرف بلغارین روٹی دستیاب نہیں،

نہ ہی کل کی بچی ہوئی روٹی !

 

"کچھ روٹیاں بکنے سے رہ جاتی ہیں

روزانہ” میرا بیٹا کہتا ہے

"ہمیں ایک روٹی دی جاتی ہے رات کے کے کھانے کے لیے

باقی روٹیوں کو پلاسٹک کی تھیلیوں میں ڈال کر

کوڑے میں پھینک دیا جاتا ہے ۔۔۔”

 

افسردگی میرے بیٹے پہ حاوی ہے

روٹی نے اسے ایک امریکی خواب دیا ہے

(اور یہ بھی ایک امریکی خواب ہے)

خدایا، کیا تم نہیں سن رہے؟ میرا بیٹا کوئی دعا مانگ رہا ہے!

خطرات اسے گھیرے ہوے ہیں ایک ہالے کی مانند

مجھے جواب دو، اے خدا، اس اکلوتی دعا کا۔۔۔

اس آخری خواہش کا

اور پھر، براہِ کرم قبول کر میرے بیٹے کی دعا

اور یقیناً، تو اسے گود لے سکتا ہے!

 

صوفیہ میں

بوڑھی عورتوں کے سائے

اندھیرے کو چمکارہے ہیں

کوڑے کے ڈھیروں سے وہ روٹیاں جمع کررہی ہیں

ان میں سے ایک عورت کی طرف اشارہ کرتے ہوے،

تاریخ اور بلغارین زبان کا ایک استاد کہتا ہے:

"کوئی نتیجہ اخذ نہ کرو، دھیرج رکھو!

یہ عورت اپنے لیے روٹی نہیں اٹھارہی

و ہ گلی کے کتوں اور پرندوں کو

کھانا دیتی ہے۔”

 

اور میرے الفاظ بھی کتوں

اور پرندوں کی غذا ہیں

 

اوہ خدایا!

کیا میں زندہ ہوں؟

میں روڈ و پیز کے پہاڑوں کیوں تنہا بھٹکتا ہوں؟

میں کیوں متروک کنووں میں جھانک رہا ہوں؟

اور  راتیں ان مقدس مقامات میں گزارتا ہوں جن سے تو دستبردار ہوگیا ہے؟

 

میں کھوجتا ہوں اس راہگزر کو

جو اس ساحر کی آخری خفیہ پناہ گاہ ہے،

جو مرنا بھول گیا ہے

لیکن روٹی کے بھید کو فراموش نہ کرپایا

آج کی روٹی، جو فروخت کے لیے ہے،

نہ ہی کل کی روٹی جسے کوڑے میں پھینکا گیا ہو۔۔۔

میں جاننا چاہتا ہوں آنے والے کل کی روٹی کا راز

وہ روٹی جسے ہم تحّیر سے چومتے ہیں

وہ روٹی جو ہمارے بچوں کا ہاتھ پکڑتی ہے

اور ان سب کو گھر واپس لاتی ہے

*

اردو ترجمہ : زینت حسام

*

لیو بومیر لیوچیف (Lyubomir Levchev) کو مشرقی یوروپ کے نمایاں شاعروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بلغاریہ کے شہر ترویان (Troyan) میں 1935 میں پیدا ہوے اور بلغاریہ کے صدر مقام صوفیہ کی یونیورسٹی سے تاریخ اور فلسفے کے مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ 1950 کی دہائی میں مشرقی یوروپ سے ستالن کا اثر جاتے رہنے (de-Stalinization) کے بعد لیو چیف نے اپریل کی پیڑھی کے نوجوان شاعروں میں اپنی پہچان بنائی جو سوویت دور کی جامد حقیقت نگاری کی حدود توڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اپنی تخلیقی زندگی میں لیو چیف کی نظموں کے تیس سے زیادہ مجموعے شائع ہوے اور تین ناول جن میں سے آخری Lament of the Dead Time کے عنوان سے 2011 میں سامنے آیا اور لیوچیف کی اپنی زندگی کے واقعات پر بنیا د رکھتا ہے۔ وہ بلغارین زبان کے ادبی رسالوں Literaturen Front اور Orpheus کی ادارت میں شریک رہے اور بلغارین ادیبوں کی یونین کے چیئر مین اور یوروپین اکیڈمی آف سائنس، آرٹ اینڈ کلچر کے رکن بھی رہے۔ شاعری میں اپنی منفرد، توانا اور ہمدرد آواز کی بدولت لیو چیف کو بہت سے ادبی اعزاز حاصل ہوے۔ انھوں نے 2019 میں صوفیہ میں وفات پائی۔

*

‘آج’ ، شمارہ نمبر126، مدیر : اجمل کمال

مشمولہ:

سہ ماہی ‘آج’، شمارہ نمبر 126 (سال 2025)

 

 

 

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button