منتخب کالم

قرضوں کی معیشت / محمد نعیم قریشی


ریاستیں ایسے نہیں چلاکرتی کہ کسی ایک جگہ سے قرضہ لے کر دوسرے کو قرضہ ادا کردواور نئے کوٹرک کی بتی کے پیچھے لگالو، موجودہ حکومت معاشی کامیابیوں کے اور ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بڑے دعوے ضرور کر رہی مگر اصل حقیقت کچھ اورہے۔ حکومت اب تک آئی ایم ایف کے علاوہ بھی ادھر ادھر ہاتھ پاؤں مارتی رہی ہے۔ ملک قرضوں تلے اتنا دب چکا ہے کہ کچھ دوست ممالک کو مجبوراًیہ کہنا پڑا کہ اب پاکستان کو اپنے قدموں پر کھڑا ہوناچاہیے اور پچھلا قرض اتارنے سمیت اپنی معاشی پالیسی پر بھی نظرثانی کرنی چاہیے۔ ایک جریدے کے مطابق بجلی کے شعبے میں گردشی قرض 2700ارب روپے ہے جب کہ گیس کے شعبے میں گردشی قرض 3000ارب روپے سے زائد ہوچکا ہے۔ بجلی کے گردشی قرضے پر سالانہ 20ارب روپے سود دیا جا رہا ہے۔موجودہ گردشی قرضوں میں 60فیصد سود کی رقم شامل ہے، مطلب گردشی قرض یا سرکلر ڈیٹ کو بڑا بحران قرار دیاجاتا تھا لیکن اب اس بحران کی سنگینی میں کئی گنا خطرناک اضافہ بتایاجاتاہے۔  ایک بیان وزیر اعظم کاہے کہ آئی ایم ایف کے قرضوں سے ملک کی معیشت میں استحکام آئے گا۔اس بیان پر میں صرف یہ جاننے کی کوشش کرونگا کہ وہ کونسا ملک ہے جسے قرضوں اور سود والے معاملات سے استحکام پہنچتاہوں؟بھلاجو رقم سودسمیت اداکرنی ہواس سے ہماری ملکی معیشت میں کیسے استحکام آسکتاہے۔؟۔اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی دستاویز کے مطابق مارچ 2025تک پاکستان پر قرضے اور واجبات 89ہزار 834ارب روپے ہوگئے۔ایک سال میں قرضوں اور واجبات میں 8ہزار 384ارب روپے اور رواں مالی سال کے پہلے 9ماہ(جولائی 2024تا مارچ 2025)کے دوران قرضوں اور واجبات میں 4ہزار 377ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔دستاویز کے مطابق مارچ 2024تک ملک پر قرضوں اور واجبات کا حجم 81ہزار 450ارب روپے تھا اور جون 2024تک پاکستان پر قرضے اور واجبات 85ہزار 457ارب روپے تھے۔ حقیقت تویہ ہے کہ پاکستان اس وقت شدید قسم کے گردشی قرضوں کی دلدل میں دھنساہواہے۔عوام کویہ معلوم ہوناچاہیے کہ پاکستان پر قرضوں کا بوجھ خطرے کے نشان سے آگے کی طرف نکل چکاہے۔جوہر گزرتے دن عوام میں بے چینی اور ملک میں معاشی بدحالی کا باعث بن رہاہے۔اس بحران کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومت جنگی بنیادوں پر اس کا حل نکالے اور خواب خرگوش سے بیدار ہو۔ ملک سے محبت کرنے والایہ نہیں سوچ سکتاہے قرضہ ہم لے لینگے ادا اگلی حکومت اداکردیگی۔یاپھر یہ قرضہ عوام کی جیبوں سے پوراکیاجائے ابھی حال ہی میں جو بجٹ پاس ہواہے اس میں ہمیشہ کی طرح سارا بوجھ عوام پر ڈالاگیاہے۔بجٹ نافذ ہوتے ہی حکومت نے ہزاروں اشیا کی درآمد پر 100ارب روپے سے زائد کا ٹیکس عائد کر دیا ہے۔ کسی بھی لیڈر کاوژن طویل المعیاد ہوتاہے وہ ناکام حکومتوں کی طرح دکھاوا اور شاہ خرچیاں نہیں کرتا ،جن ممالک نے ہمیں کہاکہ پاکستان اب اپنے پیروں پرکھڑاہو وہ ہمارے ماضی کوجانتی ہیں کہکس طرح گزشتہ حکومتیں قرضے لے کر حکومتی وشاہانہ اخراجات بڑھاتی رہیں‘ ملکی وسائل سمیت بچت پر کوئی توجہ نہیں دی گئی اور قرضے اتارنے کے لیے مزید قرضے کی پالیسی پر چلتی رہیں جس سے قرضے کے ساتھ سود کی شکل میں قرضہ مزید بڑھتا ہی رہا۔
٭٭٭٭٭




Source link

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button