محرم سکیورٹی اور سی سی ڈی کہاں کھڑے ہیں؟/ یونس باٹھ

کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کی بات کی جائے تو سی سی ڈی کے قیام سے قبل واویلا کیا جارہا تھا کہ یہ ڈیپارٹمنٹ جرائم کا خاتمہ کیسے کرے گا؟ جو کام اڑھائی لاکھ کی فورس نہیں کرسکی وہ چند ہزار لوگ کیسے کرینگے؟تاہم اگر سی سی ڈی کی کارکردگی پر نظر دوڑائی جائے تو اس نے اپنے قیام کو درست ثابت کیا ہے،پنجاب میں پہلی بار جرائم پیشہ افراد میں خوف کی لہر دیکھی جارہی ہے، قتل، ڈکیتی،اغواء سمیت سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کے خلاف سخت ترین کریک ڈاؤن کیا جارہا ہے۔پولیس مقابلوں سے ہٹ کر سنگین جرائم میں ملوث ملزمان کی گرفتاریوں میں اضافہ ہوا ہے۔یوں تو روزانہ ہی انتہائی خطرناک اور علاقے میں وحشت طاری کرنے والے ملزمان سی سی ڈی کی ٹیموں کے ساتھ مقابلوں کے دوران اپنے انجام کو پہنچ رہے ہیں لیکن فیصل آباد کے علاقے میں دہشت کی علامت سمجھے جانے والے شاہ گینگ کے 2 اشتہاری ملزمان محمد وقاص اور انعام الحق عرف فوجی کی پولیس مقابلے کے دوران علاقے میں جو خوشی کی لہر دوڑی ہے بیان سے باہر ہے۔ ہلاک اشتہاری پولیس کو قتل، ڈاکے، راہزنی، بھتہ خوری سمیت درجنوں مقدمات میں مطلوب تھے۔ یہ دو ہی نہیں ملزمان بھائیوں کی تعداد زیادہ ہے۔دیگر ملزمان بھی مارے جا چکے ہیں یہ کیسے مارے گئے ان کا تذکرہ ہم آئندہ لکھی جانیوالی کسی ڈائری میں کریں گے۔ان ملزمان نے علاقہ کو عوام الناس اور سرکاری اہلکاروں کے لئے نو گو ایریا بنا رکھا تھا۔ یہاں تک کہ ان کے گاؤں میں ان کی مرضی کے بغیر کوئی مہمان اور برأت بھی نہیں آ سکتی تھی۔ برأت وغیرہ کے مہمانوں کی چیکنگ کی جاتی اور پھر داخل ہونے دیا جاتا۔ ان کی جانب سے لوگوں کی عزتوں پر ہاتھ ڈالنا اور قتل و غارت عام بات تھی اور ان کے خوف سے نوے فیصد سے بھی زائد متاثرین ان کے خلاف قانونی کارروائی سے گریزاں تھے۔ جو کارروائی کرواتا اسے نشان عبرت بنا دیتے۔ایسے ملزمان کا ان کے انجام تک پہنچانے والی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے۔ دیگر بھی کئی خطرناک ملزمان جنہیں گرفتار کرنا علاقے کی فورس کے بس کی بات نہ تھی۔یہ سی سی ڈی کا قیام ہی ہے جو ان کے خاتمے کا سبب بنی ہے۔ کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ سہیل ظفر چٹھہ اور ان کی ٹیم سے وزیر اعلیٰ پنجاب نے جو امیدیں باند ھ رکھی تھیں وہ اس کے لیے سو فیصد کامیاب دیکھائی دے رہے ہیں۔