منتخب کالم

شمسی توانائی: ایک خیال سے حقیقت تک کا سفر (آخری قسط)/ عاطف محمود ۔۔ مکتوب آئرلینڈ


اس روشنی بھری داستان کے سائے بھی ہیں۔ دوپہر کے وقت جن گھروں کی چھتیں بجلی اگلتی ہیں، وہی بجلی گرڈ کیلئے کبھی کبھی بارِ اضافی بن جاتی ہے کیونکہ ذخیرہ اندوزی کا بنیادی ڈھانچہ ابھی اتنا وسیع نہیں کہ اس فیاضی کو شام کے سناٹوں تک سنبھال سکے۔ بیٹری سٹوریج کی عالمی قیمت اب بھی عام شہری کیلئے دائو پر لگی ہوئی جیب کی آزمائش ہے۔ مقامی پینل سازی کے کارخانے ابھی ناتواں قدموں پر چل رہے ہیں اور اگر چین کے بعد ڈالر کی ا¢نچی لہروں نے ان ماڈیولز کو مزید مہنگا کر دیا تو طوفانِ مہنگائی اس خواب کی آنکھوں میں گرد بھر سکتا ہے۔ 
ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی گرڈ کو جلد از جلد سمارٹ گرڈ کی صورت میں دوبارہ تعمیر کیا جائے تاکہ بجلی کی طلب اور رسد لمحہ بہ لمحہ ناپی جا سکے اور اضافی توانائی کو ہائیڈرو پمپ اسٹوریج یا بڑے بیٹری بینکوں میں قید کیا جا سکے۔ ساتھ ہی مقامی صنعت کی ہنر مند انگلیوں کو سرمایہ کاری اور ٹیکس مراعات کا سہارا دیا جائے تاکہ پاکستان شمسی پینل اور بیٹری سیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکے۔ نیٹ میٹرنگ کے نرخ شفاف، مستقل اور پیش گوئی کے قابل ہوں تاکہ کوئی شہری پالیسی کی دھند میں اپنا سرمایہ ڈوبتا دیکھ کر پیچھے نہ ہٹے۔ تعلیمی نصاب میں قابل تجدید توانائی کو فقط ایک انتخابی مضمون کے طور پر نہیں بلکہ علمی ریڑھ کی ہڈی کی طرح شامل کیا جائے تاکہ یونیورسٹیوں کے نوجوان کل کے شمسی انجینئر نہیں بلکہ اس انقلاب کے معمار بن کر نکلیں۔
شمسی کرنوں کی تڑپ محض تکنیکی انقلاب سے زیادہ ہے؛ یہ در اصل تہذیبی بیداری ہے۔ جب قوم سورج کو اپنی تقدیر کا معمار مان لیتی ہے تو اس کے مزاج میں خود داری اور دل میں امید کے دیے جل اٹھتے ہیں۔ آج ہماری چھتیں، صحرا اور پہاڑ سب مل کر ایک ایسا قومی ترانہ گا رہے ہیں جس کی لے میں خود انحصاری، ماحولیاتی ذمے داری اور اقتصادی وقار جھلکتا ہے۔ اگر ہم نے اس ترانے کو پوری قوت سے نبھایا تو دو ہزار تیس میں ساٹھ فی صد بجلی صاف ذرائع سے حاصل کرنے کا خواب صرف حکومتی دستاویز نہیں رہے گا بلکہ گلی کوچوں کی حقیقت بن چکا ہو گا۔
وقت کا تقاضا ہے کہ ہم اس روشنی سے نظریں نہ چرائیں بلکہ اسے قومی پالیسی، صنعتی ترجیح اور سماجی شعور کی بنیاد بنائیں۔ وہ سورج جو روز ہمارے گھروں کی دیواروں پر سونے کی چادر بچھاتا ہے، دراصل سرمایہ ہے؛ اگر ہم نے اس سرمایہ کو دانشمندی سے خرچ کیا تو بجلی کا بل نہیں، ملک کا مقدر کم ہو گا۔ بچوں کی سانسیں کاربن سے آزاد ہوں گی، زرمبادلہ کے ذخائر خطرے کی لہر سے باہر آجائیں گے، اور وطن کی حرارت دنیا کے نقشے پر توانائی کے نئے باب کا عنوان بن جائے گی۔ یہ روشنی ہم پر قرض بھی ہے اور امانت بھی۔ ہمیں اسے محفوظ رکھنا ہے، بڑھانا ہے اور آنے والی نسلوں کے ہاتھ میں روشن تر کر کے تھمانا ہے تاکہ جب وہ تاریخ کے صفحے پر پاکستان کا نام پڑھیں تو سورج کی پہلی کرن کی طرح تابناک فخر ان کی آنکھوں میں جھلک اٹھے۔
قوموں کی زندگی میں ایسے لمحات کم ہی آتے ہیں جب قدرت اور تدبیر ایک ہی سمت میں قدم بڑھاتی ہے۔ آج پاکستان اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں سورج صرف طلوع نہیں ہوتا، بلکہ ہمیں راستہ دکھاتا ہے۔ یہ دھوپ صرف دن کو روشن نہیں کرتی، بلکہ عزم، استقلال اور خود انحصاری کی روشنی بھی دیتی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ ہم شمسی توانائی سے کیا پا سکتے ہیں، بلکہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس نعمت کو ایک خواب سے حقیقت میں ڈھالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں؟ اگر ہم نے اس روشنی کو صرف چھتوں تک محدود رکھا، اور پالیسی کو کاغذوں میں قید رکھا، تو یہ کرنیں وقت کی گرد میں کھو جائیں گی۔ لیکن اگر ہم نے اسے عوام کا ہنر، طالب علم کا مضمون، کاریگر کا ہنر، اور حکومت کی بصیرت بنا دیا، تو آنے والی نسلیں ہمیں اس قوم کے طور پر یاد رکھیں گی جس نے دھوپ کو فقط سہا نہیں، سنوارا۔۔۔ اور اسے اپنا مقدر بنا لیا۔
آئیے ہم اس عہد کی تجدید کریں کہ ہم اس روشنی کو صرف چھتوں تک محدود نہیں رکھیں گے، ہم اسے اپنی سوچ، اپنی پالیسی، اپنے طرزِ حکمرانی، اور اپنی قومی خودداری تک وسعت دیں گے۔ کیونکہ یہی روشنی کل ہماری نسلوں کے خوابوں کو روشن کرے گی، اور یہی دھوپ ان کے نصیب کی سب سے روشن صبح بنے گی۔




Source link

اپنی رائے دیں

Related Articles

Back to top button