اُردو ادباُردو شاعرینظم
ان گنت / زاہد خان

اُس نے مُڑ کر سَمندر کی لہروں کو
انگلی پہ گننے کی کوشش تو کی
پر نہیں گِن سکا
اس نے گہرے اندھیرے میں
جھلمل ستاروں بھرے آسماں کو
ٹٹولا مگر وہ ستارے نہیں گِن سکا
اس نے نظروں کو سورج کی جانب بھی پھیرا
مگر ایک سورج کو گننے میں دشواری کیا؟
ہر طرف جب نمائندگاں گوشواری کے خانوں کو
بھرنے کو تیّار تھے
بستیاں خالی ہونے کے دن آ گئے
گرد اڑتی رہی اور مکانوں میں آسیب بسنے لگے
موت تیّار تھی اپنا تیشہ اٹھائے،
گلی میں صدائیں لگاتی رہی
پھر بھی جانے کہاں کس طرف زندگی
دھوپ کی آس میں اپنی دانستگی میں نموکار ہوتی رہی
اس نے بالوں میں گرتی سفیدی کو
گننے کی کوشش نہیں کی
کہ گننتی ازل کو ابد سے ملاتی نہیں
کوئی کیسے گنے
ناامیدی اور ان دیکھی خواہش کے پاتال میں
کتنے پتھر گِرے
کوئی کیسے گنے؟
اپنی رائے دیں
Follow Us