افسانہ : آئینہ /افسانہ نگار: بنت قمر مفتی

تائی امی کی منتوں کے بعد آخر میَں نے اس بدنام گلی میں جانے کا فیصلہ کرہی لیا جہاں آج کل میرے تایا زاد عابد کا آنا جانا تھا۔
————–
عابد دیوانگی کی حد تک جس لڑکی سے محبت کرتا تھا اُس کی شادی ہو جانے پر عابد نے اپنا حال ناکام عاشقوں سا بنا رکھا تھا ۔
اب نہ جانے کیسے عابد نے اس بدنام علاقے کی راہ لے لی تھی۔ میَں اُسے پہلے بھی سمجھا چکا تھا۔ لیکن وہ وہاں کی ایک لڑکی کے قصیدے پڑھنے لگ گیا تھا۔
”پہلے دیوانگی کی حد تک حنا سے محبت اور اب اس کوٹھی میں آنا جانا جہاں کوٹھے والے رہتے ہیں۔ تمہیں اب کسی اور لڑکی سے محبت ہوگئی ہےکیا؟“میرے استفسار پراس نے کہا
وہ مَردوں سے شدید نفرت کرتی ہے ۔ محبت پر یقین نہیں رکھتی۔ وہ محبت کے خلاف دلیلیں دیتی ہے اور میَں محبت کے حق میں““
میری نصیحت کو نظر انداز کر کے وہ اسی کی باتیں کیے جارہا تھا۔
’’ایسے ہی تمہیں باتوں میں گھما رہی ہے، کن چکروں میں ہو تم عابد ؟ اپنی عزت بچاؤ، ابھی تائی امی بے خبر ہیں تمہارے وہاں جانے سے ‘‘، میَں نے اسے پھر سے تنبیہ کی۔
’’اظفر بھائی ہمارے بیچ صرف باتیں ہوتی ہیں۔ ”
میرا اس سے رشتہ ہی کچھ اور ہے، روحانی تعلق بن گیا ہے اس سے“۔۔
واہ واہ روحانی تعلق ، میں نے سر جھٹکتے ہوئے بے یقینی سے اسے دیکھا تھا۔
” جس سے محبت کی جاتی ہے اس کے احساسات و جذبات عزیز ہوتے ہیں۔ صرف جسم سے نہیں مکمل وجود سے محبت کی جاتی ہے۔ محبت تو روح تک سیراب کردیتی ہے۔‘‘ میری سماعتوں میں کسی کے سالوں پہلے کہے جملے گونجنے لگے
اُس دن تائی کی طبیعت بگڑ رہی تھی، اُنہوں نے دو دن سے اپنے لاڈلے کی شکل نہیں دیکھی تھی ۔ عابد نے اپنا موبائل بھی بند کر رکھا تھا۔ چارو ناچار میَں اُس علاقے میں پہنچ گیا ۔ لوگوں کی نظروں میں گرنے کا خوف مجھ پر حاوی تھا کہ کوئی مجھے یہاں دیکھ نہ لے۔
وہ سڑک بند گلی میں ختم ہورہی تھی۔ اس گلی میں کل پانچ گھرتھے اور ان سب گھروں میں راتیں جاگتیں اور حسن ناچتا تھا – مجھے وہاں موجود لوگوں سے بڑی کراہت محسوس ہو رہی تھی۔
معلومات لیتا میں ایک گھر میں داخل ہوا تووہاں ایک لڑکی سے سامنا ہو گیا۔
لڑکی نے سر سے پاؤں تک مجھے دیکھا،سگریٹ کا دھواں میرے چہرے پر چھوڑتے ہوئے سوالیہ انداز میں ابرو اچکائے۔
میَں نے نفرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے آگے بڑھنے کی کوشش کی لیکن لڑکی نے میرا بازو پکڑ کر روک لیا ۔۔۔۔
’’کہاں صاحب ایسے کیسے ۔۔؟ کچھ جیب تو ہلکی کرو ‘‘ لڑکی نے اپنی ہتھیلی پھیلائی۔
میَں نے حقارت سے اُسے پیچھے ہٹنے کا اشارہ کیا۔
’’دُور رہو مجھ سے“, میں نے اسے دھتکارتے ہوئے کہا، ”میَں عابد کو لینے آیا ہوں، اپنی کسی حاجت کے لئے نہیں آیا‘‘ میَں نے پیسے اُسکی ہتھیلی پر غصے سے دھرتے ہوئے حقارت سے کہا۔
’’ پاک ہونے آیا ہے ناپاک جگہ پر؟‘‘،اُس نے کھوکھلا قہقہہ لگاتے ہوئے سر جھٹکا۔
میَں آگے گیلری کی طرف بڑھ گیا۔ گیلری کی دونوں اطراف تقریبا چھ کمرے تھے۔ ان کمروں سے عابد کی آواز سننے کی کوشش رہا تھا۔ کسی کمرے سے کوئی شوخ سی ہنسی، کہیں سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک کمرے کے ادھ کھلے دروازے میں جھانکا تو کالی چادر میں لپٹا ایک وجود سجدے میں جھکا ہوا سسک رہا تھا”سزا ختم کردے ۔۔۔ بس کردے، معاف کردے“ ”
وہ کربناک لہجہ، وہ سسکیاں
مجھے دل میں چبھتی ہوئی محسوس ہوئی ۔میَں گھبرا کر پلٹا، مجھے لگا کسی نے مجھے پوری قوت سے گھما دیا ہو۔ میَں چکرا سا گیا۔۔۔
وہیں پر پڑے ایک بنچ پر میں نے خود کو گرا دیا۔ باہرموجود لڑکی بھاگ کر پانی لے کر آئی۔ میں نے حقارت سے اسے پیچھے ہونے کا اشارہ کیا ’’ پی لو پانی سے کیسی نفرت یہ تونعمت ہے صاحب ‘‘۔
میَں نے ایک ہی سانس میں پانی پی لیا۔ میرا ذہن کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
’’کیا ہوا جناب ؟‘‘ لڑکی نے پُوچھا۔
’’وہاں کون …. ۔۔میری زبان لڑکھڑا رہی تھی ۔
’’ارے صاحب جب بھی کوئی نئی آتی ہے نا بے چاری بد نصیب تو ایسے ہی گڑ گڑاتی ہے ، ایک دو بار یہاں سے بھاگنے کی کوشش بھی کرتی ہے پھر ایسے ہی سجدوں میں پڑی رہتی ہے۔ لیکن ہماری کون سنتا ہے ؟ ہم مردہ روحیں اور بھٹکے ہوئے جسم ہیں، سانس لیتی لاشیں‘‘، نہ جانے کیا فلسفہ جھاڑ رہی تھی وہ لڑکی۔
میَں بالکل نہیں سمجھ رہا تھا، بس وہ سسکیاں میرے کانوں میں گونج رہی تھیں۔
میری کیفیت دیکھ کر اس نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ مجھے جیسے کرنٹ سا لگا۔ میَں نےکراہت سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
’’ اتنی حقارت کیوں ہے صاحب؟ ہم بھی انسان ہیں ۔اصولاً نفرت تو آپ لوگوں سے ہمیں کرنی چاہئے‘‘ لڑکی بولی۔
’’اچھا‘‘ میں نے طنزاً کہا۔
’’ہاں مردوں کے لئے ہی تو یہ جگہ سجتی ہے ۔۔ مرد ہی عورت کو بازاری بنا دیتا ہے ۔۔ کوئی عورت تو عیاشی کے لئے یہاں نہیں آتی کاش یہ نام نہاد غیرت مند مرد عورت کی عزت کرنے والا حقیقی معنوں میں عورت کا محافظ بن جائے تو کہیں بھی ایسے گھر آباد نہ ہوں ۔ بازاری عورت سے نفرت کرنے والے مرد یہاں کے گاہک ہیں ۔۔۔۔ غیرت مند مرد ‘‘ نم۔آنکھوں کے ساتھ وہ کھوکھلے قہقہے لگا رہی تھی
میَں بنچ سے اٹھ کر کمروں کی جانب جانے لگا تو وہ بول پڑی "بیٹھ جاؤ کچھ دیر میں آجائے گا تمہارا دوست۔ تم جیسے پاک عزت دار مرد کو زیب نہیں دیتا خوامخواہ کی ٹوہ لینا‘‘ اس نے طنز کیا۔
’’وہ لڑکی ۔۔۔۔۔ ‘‘، میَں نےبرآمدے کے بنچ پر بیٹھتے ہوئے پوچھا۔ میرا تجسس قائم تھا، ایسا بھی کچھ یہاں ہوگا میرے تصور میں نہیں تھا میَں نے ذہن جھٹکنا بھی چاہا لیکن وہی وجود نظروں کے سامنے آ رہا تھا۔
’’مری ہوئی روح ہے صاحب، بھٹکا ہوا جسم ہے‘‘، ڈبیا سے سگریٹ نکال کر سلگاتے ہوئے رازدارانہ انداز میں سرگوشی کرتے اُس نے کہا۔
’’کوئی عزت دار مرد اس کی روح کا قاتل ہے۔ محبت کے قبرستان میں اسکی روح دفن کردی گئی ہے” وہ ہولے سے بولی
قتل تو جسم کا ہوتا ہے بھٹکتی تو روحیں ہیں بھلا روحیں بھی کہیں دفن ہوسکتی ہیں‘‘، میَں نے اسکی بات کی تردید کی۔
” سانس لیتی لاشیں ہیں ہم۔ جو یہاں بھٹکتی رہتی ۔۔۔۔ ہماری روحیں مدفن ہیں ۔ وفا ہماری روح کی قبر پر ماتم کرتی ہے ، کوئی انصاف نہیں یہاں قاتل کھلے عام با عزت پھر رہے ہیں‘‘،
اس نے مجھ پر گہری نظر ڈال کر ایک گہری سانس لی
’’ ’’کبھی سوچا ہے صاحب؟ یہ نام نہاد عزت دار مرد اگر یہاں آنا چھوڑ دیں تو ہمارا وجود بھی بھٹکنے سے آزاد ہو جائے ۔ کوئی ہمیں بھی ناپاک نہ بولے ۔۔ ‘‘ پھر سے کیا فلسفہ جھاڑ رہی تھی وہ ۔
میرا دھیان سجدے میں پڑے اس وجود میں اٹکا ہوا تھا۔
’’یہ لڑکی نئی آئی ہے کیا‘‘، میَں نے پھر سے سوال کردیا۔
اُس لڑکی نے سگریٹ کا گہرا کش لیا اور آنکھیں سکیڑ کر مجھے دیکھنے لگی۔ میَں بھی سوالیہ نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔
’’ چار سال پہلے آئی تھی۔ کسی لڑکے سے محبت ہوگئی تھی۔دوسرے شہر ہاسٹل میں رہتی تھی۔ فون پر بات کرتے کرتے محبت ہوگئی اُسے۔ ایک دن اس لڑکے کے بہت اصرار پر اُس سے ملنے گئی تھی۔ ہوٹل میں بلایا تھا لڑکے نے۔ بختوں کی ماری ، محبت میں مان گئی، ملاقات کرنے گئی تھی لیکن اُسی دن ہوٹل پر پولیس آ گئی! وہ عزت دارلڑکا تو اپنی عزت بچا کر فرار ہوگیا۔یہ بے چاری پولیس کے ہاتھ لگ گئی۔ گھر والوں نے اپنی عزت بچائی، وارث نہ بنے۔ لاوارث ہوگئی تو پھر یہاں کے مالکان نے پناہ دی۔ بے چاری کو کیا علم تھا کہ یہاں کھلے پنجرے کے قیدی ہیں۔ پناہ نہیں گناہ کی آ مجگاہ ہے۔ اس نے بہت منت کی۔ لیکن یہاں ر رہنے کو چھت اور دو وقت کا کھانے کی قیمت تو وصولنی تھی نا۔ بھاگ کر کہاں جاتی یہاں سے باہر بھی مرد ہی ہیں ۔ اس نے تنگ آکر اپنا چہرہ جلا لیا کہ نہ کوئی پسند کرے گا نہ کوئی پاس آئے گا۔ بس نوکرانی بن گئی ہے۔ کھانا بناتی صفائی ستھرائی کرتی ہے توایک وقت کھانا ملتا اسے۔ بس زندگی ایسے ہی زندگی چل رہی ہے۔ معصوم محبت کا اتنا سفاک انجام، بے چاری پومی “ ۔ وہ ڈبی سے دوسری سگریٹ نکال کر سلگانے لگی۔
مججے بہت گھٹن محسوس ہوئی۔ میَں گھبرا کر باہر نکل آیا۔
اِس بدنام گلی میں داخل ہوتے جتنی کراہت محسوس ہورہی تھی اس سے دگنی کراہت مجھےمیں نے محسوس کی تھی اس سے دگنی اپنے وجود سے محسوس ہورہی تھی۔
چار سال پہلے کا واقعہ میری نظروں میں گھوم گیا۔
میں زیرلب بڑبڑایا "پومی”