fbpx
افسانہ و افسانچہ

ریاکاری / بابر شیراز

ریاکاری / بابر شیراز
ریاکاری / بابر شیراز
مشرف دورِ حکومت میں محسوس ہوتی ہوئی تبدیلی گاؤں میں وارد ہوئی۔۔۔۔۔۔ لوگوں کے رویےّ ، رہن سہن الغرض زندگی کے
تمام پہلو اس تبدیلی کی زد میں آئے۔۔۔۔گاؤں کو چہار اطرف سے گھیرا ڈالتی سوسائٹیاں نجانے کس کی سرپرستی میں ایسے متحرک ہوئیں کہ الامان الحفیظ۔۔۔۔
دو ہزار ، تین ہزار روپے کنال کے حساب سے لوگوں سے زمینیں خریدی گئیں ، صدیوں کی بھوک کا شکم سیر تو ہوا لیکن بدلے میں اناج اگلتی زمینوں میں سریا سیمنٹ اور اینٹوں کی فصلیں لہرانے لگیں۔۔۔
پہلے مکانات پختہ ہوئے پھر دیکھا دیکھی قبریں بھی پختہ ہونے لگیں۔۔۔۔۔ دیگر رسوم و رواج میں جدت آئی تو مذہبی تہوار بھی پیچھے نہ رہ سکے ، مساجد کی تزئین و آرائش میں بھی قابلِ قدر اضافہ ہوا۔۔۔۔۔حج اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ اُسی رفتار سے ہوا جس رفتار سے زمانہ بدلا۔۔۔۔۔آئے روز خبریں آنے لگیں کہ فلاں گھر کا مرد پیر یا فلاں کی ماں حج یا عمرہ کرنے جا رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
اماں ایسی خبریں سنتیں تو ایک لمبا سانس خارج کر کے کہتیں ” اللہ جی کبھی میری بھی سنے گا “
ہم باپ بیٹے سنی ان سنی کر دیتے کہ ہمارے کنبے نے اس وقت تک ایک مرلہ بھی نہیں بیچا تھا۔۔۔۔۔چھوٹے دونوں تھوڑے تھوڑے وقفے سے پردیس گئے تو کچھ سانس بحال ہوا وگرنہ بدلتے دور میں جینا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
گھر بار اور دیگر دنیاوی شان و شوکت مکمل ہونے کے بعد اماں کا شوقِ عمرہ فزوں تر ہو گیا ، اُٹھتے بیٹھتے پاک مقامات کا تذکرہ کرنے لگتیں ۔۔۔
جذبات میں شدت اُس وقت اور زیادہ ہو جاتی جب خاندان یا گاؤں کی کوئی عورت عمرہ کر کے آتی اور اماں حسبِ دستور اسے ملنے جاتیں اور واپسی پر سُنی ہوئی کہانیاں مزے لے لے کر سناتیں۔۔۔۔
اسی دھوپ چھاؤں میں وقت گزرتا رہا کہ اماں کو کالا یرقان تشخیص ہو گیا جس کا علاج بہتر انجکشن کی صورت میں شروع ہوا ، بعد از علاج اماں بھلی چنگی ہو گئیں۔۔۔۔
اللہ کے حکم سے گاؤں کی کچھ خواتین و حضرات گروپ کی صورت میں عمرے کو چلے تو چھوٹا کہنے لگا اماں کا پاسپورٹ بناوائیں تاکہ وہ بھی عمرے کا فریضہ ادا کر سکیں۔۔۔۔
پہلے تو محرم کا مسئلہ درپیش ہوا کہ محرم کا ساتھ جانا ضروی ہے۔۔۔۔اماں نے اس مسئلے کا حتمی حل ڈھونڈ لیا ، کہنے لگیں طاہر کی ماں شروع دن سے میری بہن بنی ہوئی ہے تو ان کے خاوند بھائی ایوب میرے بھائی ہی ہوئے نا۔۔!  بس میں اُن دونوں کیساتھ چلی جاؤں گی۔۔۔۔
میں نے اور ابا نے احتجاج کرنا چاہا لیکن اماں کی بیماری اور شوق نے ہمیں خاموش رہنے پر مجبور کر دیا۔۔
ارجنٹ پاسپورٹ بنانے گئے تو اماں کی خوشی دیدنی تھی۔۔۔۔سفری تقاضے پورے ہوئے اور وہ دن بھی آ گیا جب اماں نے حجازِ مقدس کے لئے روانہ ہونا تھا، جاتے ہوئے مجھے ہوشیار رہنے کی تاکید کرتے ہوئے اماں نے دیگر مناسب ہدایات بھی دیں جن پر عمل کرکے ہی ثوابِ دارین ملنا تھا۔۔۔۔۔۔
اکیس دن پلک جھپکتے ہی گزر گئے ، میں نے کوشش کر کے اماں کی ہدایات کے مطابق راجہ بازار سے سفید رنگ کے دوپٹے ، لمبی لمبی کجھوریں ، تسبیحاں ، پرنے ، چھلے اور ایسی دیگر چیزیں خرید کر رکھ لیں تھیں تاکہ بوقت ضرورت کام آئیں۔۔۔
وہ دن بھی آ گیا جب اماں نے واپس آنا تھا۔۔۔۔۔ہم سب ائرپورٹ پر استقبال کے لئے پہنچے اور اماں کو گلاب کے پھولوں سے لاد کر گھر لے آئے۔۔۔۔۔دوسرے دن توقع کے مطابق الے محلے اور گاؤں کی عورتیں مبارکباد کے لئے آنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں اُس وقت ورانڈے میں بیٹھا تھا اور اماں سامنے والی چارپائی پر تکیے سے ٹیک لگائے تسبیح میں مصروف تھیں جب خالہ زبیدہ سب سے پہلے مبارک دینے پہنچیں۔۔۔۔تعریفی کلمات کے بعد وہ “وہاں” کے بارے میں پوچھنے لگیں اور اماں بتانے لگیں۔۔۔۔
باتیں جاری تھیں جب گھر کی اکلوتی بہو نے خالہ زبیدہ کو ننھے منے گلاس میں آبِ زم زم اور لمبی لمبی کجھوریں پیش کیں جنہیں خالہ نے عقیدت اور رغبت سے کھایا پیا۔۔۔۔کچھ دیر بعد اکلوتی بہو پھر فریم میں آئی اب کی بار اس کے ہاتھوں میں میرا خریدا ہوا ایک سفید براق دوپٹہ اور ایک پیک شدہ تسبیح تھی جسے لا کر اس نے اماں کے ہاتھوں میں دیا ۔۔
اماں نے کمال محبت سے دونوں تحائف خالہ کو پیش کئے ۔۔۔خالہ نے دوپٹہ آنکھوں سے لگایا اور تسبیح کو چوما۔۔۔۔اس سے زیادہ دیکھنا اور برداشت کرنا میرے لئے مشکل ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔میں نے کوشش تو بہت کی لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی مجھے ہنسی آ گئی ۔۔۔اماں نے گھور کر میری طرف دیکھا لیکن میں اپنی ہنسی پر قابو نہ رکھ سکا۔۔۔۔اماں نے تسبیح دائیں سے بائیں ہاتھ میں شفٹ کی اور اپنی چپل اُٹھا کر مجھے بچاتے ہوئے میری طرف اچھال دی۔۔۔۔
میں نے وہاں سے بھاگنے میں ہی عزت و عافیت جانی۔۔۔۔ بڑے دروازے کی طرف جا رہا تھا جب میرے گناہگار کانوں نے سُنا ، خالہ اماں سے پوچھ رہی تھیں کہ کیا ہوا اور اماں بتا رہی تھیں ۔۔۔
“ہائے بہن ہونا کیا ہے۔۔۔یہ آج کل کی اولاد چار کتابیں پڑھ کر خود کو عالم سمجھنے لگتی ہے۔۔۔۔۔”
خالہ کہنے لگیں۔۔۔۔” اُسے دفع کر ، تو  بتا میرا سلام کہا ۔۔۔؟”

Facebook Comments

Back to top button