دنیا کا آخری کنارہ / سلمان باسط


دنیا کھوجنے کی دُھن مجھے ناروے کے حسین دارالحکومت اوسلو کے شمال میں تقریبا” دو سو کلومیٹر کی مسافت پر واقع فیرڈر میونسپلٹی میں شامل یما جزیرے کے انتہائی جنوب کے آخری سرے پر لے آئی تھی۔ اس مقام کو دنیا کا اختتامی سرا کہا جاتا ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے لوگ اپنی سیاحت کی اشتہا بجھانے کے لیے یہاں موجود تھے اور حیرت بھری آنکھوں سے اس مقام کو دیکھ رہے تھے جس سے آگے کوئی انسانی آبادی نہیں۔ جہاں کوئی انسان نہیں رہتا۔اس جگہ سے آگے اس کی تہذیب،معاشرت، زبان، اس کے بنائے قوانین حتیٰ کہ وہ خود بھی بے حیثیت ہو جاتا ہے۔ یہ وسیع و عریض خطہ بے شمار چھوٹے چھوٹے جزائر اور قدیم چٹانوں کی آماجگاہ تھا۔ ایک آدھ جزیرے تک ایک تنگ سا پل محدود انسانی استعداد کی کہانی سنا رہا تھا۔ اس سے آگے نہ کوئی سمت تھی اور نہ رہنمائی کا کوئی نشان۔کچھ تھا تو نیلگوں آسمان کی وسعت سے بغل گیر ہوتے بے کراں سمندر کا شفاف پانی۔ اِس طرف گول پتھروں سے بنے ایک مخروطی ہٹ کے اوپر ایک طویل القامت بانس کے بلند ترین سرے پر ایک لالٹین لٹک رہی تھی جو شاید روشنی برقرار رکھنے کی انسانی کوشش کا آخری حوالہ تھی۔میں آنکھوں میں حیرت اور دل میں بے کلی لیے دنیا کے آخری کنارے پر آ پہنچا تھا۔ آگے نامعلوم کی وسعتیں تھیں۔ اسرار کی داستانیں تھیں۔ ماورائی جہانوں کے واہمے تھے۔ میں ایک روز فنا کے گھاٹ اترنے کی حقیقت سے آشنا فانی انسان تھا لیکن میرے فنا ہونے کا وقت غالبا” کسی اور ساعت پر اٹھایا جا چکا تھا۔ کچھ دیر تک ساکت کھڑا آنکھ اور دل کی پہنائیوں میں یہ سب سمیٹتا رہا۔ بالآخر اختتام کی طرف سے منہ پھیر کر میں پھر سے دنیا کے ریلے میں بہنے کے لیے لوٹ آیا۔
You must log in to post a comment.